سرینگر کی جامعہ مسجد میں جمعہ پڑھنے پر پابندی

جمعہ کے علاوہ باقی دنوں میں نماز پڑھی جاسکتی ہے، بھارتی حکام نے مسجد میں حکومت مخالف احتجاج کی وجہ سے پابندی لگا رکھی ہے۔

سرینگر کی جامعہ مسجد میں 33 ہزار افراد کے نماز پڑھنے کی جگہ ہے اور خاص موقعوں پر یہاں کئی لاکھ مسلمان قریب کی سڑکوں اور گلیوں میں صفیں بچھا کر نماز ادا کرتے ہیں۔

بھارتی حکام کو یہ مسجد خطرے کا گڑھ لگتی ہے جہاں سے شروع ہونے والے احتجاج اور مظاہرے کشمیر کے متنازع علاقہ میں بھارتی خودمختاری کے لیے بڑا چیلنج بن گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

سرینگر: حقوِقِ انسانی کے سرگرم کشمیری کارکن ’خرم پرویز گرفتار

5اگست کا یکطرفہ اقدام کشمیریوں کے ساتھ ظلم ہے، شاہ محمود قریشی

کشمیری مسلمانوں کے لیے یہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے ایک مقدس مقام ہے اور ایسا مقام جہاں وہ اپنے سیاسی حقوق کے لیے بھی آواز بلند کرسکتے ہیں۔

تلخ تنازع کی وجہ سے، کشمیر کے مرکزی شہر میں واقع یہ مسجد پچھلے دو برس سے بند پڑی ہے۔ امام مسجد کو ان کے گھر میں نظربند کردیا گیا ہے اور مسجد کا مرکزی دروازہ زنجیروں اور تالوں سے بند کردیا گیا ہے۔

مسجد کی بندش نے کشمیر کی مسلم آبادی میں غصے کو مزید بڑھا دیا ہے، بھارتی حکام نے خبر رساں ایجنسی اے پی سے مسجد پر پابندیوں کے حوالے سے بات کرنے سے انکار کردیا۔

ماضی میں حکومتی عہدیداران کا کہنا تھا کہ مسجد کو جبری طور پر بند کرنے کی وجہ یہ ہے کہ مسجد کی انتظامی کمیٹی اپنے احاطے میں بھارت مخالف مظاہروں کو روکنے میں ناکام رہی۔

600 سال پرانی یہ مسجد 2019 میں لگنے والی پابندیوں کی زد میں آئی جب حکومت نے کشمیر کی خودمختار ریاست کی حیثیت ختم کردی۔

پچھلے دو سال کے دوران علاقے کی کئی دیگر مساجد اور مزاروں کو بند کیا گیا لیکن اب ان میں سے بیشتر کو مذہبی اجتماعات کی اجازت دے دی گئی ہے۔

جامعہ مسجد بدستور جمعہ کی نماز کے لیے بند ہے، حکام نے ہفتے کے باقی 6 دن مسجد کھولنے کی اجازت دے دی ہے لیکن جمعہ کے دن مسجد کو بند رکھا جاتا ہے۔

علاقے کے مسلمانوں کے لیے مسجد کا بند ہونا ماضی کی درد بھری یادوں کو تازہ کردیتا ہے، سنہ 1819 میں سکھ حکمرانوں نے جامعہ مسجد کو 21 سال تک بند رکھا۔

پچھلے 15 سالوں کے دوران یہ مسجد بھارتی حکومت کی جانب سے وقتی طور پر بندش اور لاک ڈاؤن کا شکار رہی ہے۔

متعلقہ تحاریر