رانا شمیم ​​نے نواز شریف کے دفتر میں حلف نامے پر دستخط کیے، نیا انکشاف

برطانیہ کے وکیل چارلس گتھری کا کہنا ہے کہ سابق چیف جج گلگت بلتستان سابق وزیر اعظم پاکستان اور مسلم لیگ (ن) کے سربراہ کے 'قریبی دوست' ہیں۔

برطانیہ کے وکیل چارلس گتھری جوکہ رجسٹرڈ نوٹری پبلک ہیں نے انکشاف کیا ہے کہ سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا محمد شمیم نے اپنے حلف نامے ، جس میں انہوں نے سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک موجودہ جج پر سنگین نوعیت الزامات لگائے ہیں ، پر دستخط لندن میں میاں نواز شریف کے آفس میں دستخط کیے تھے۔

بیان حلفی جس کے مندرنات میں تین سال پرانے مبینہ واقعات کا ذکر ہے۔ سابق چیف جج رانا محمد شمیم نے سابق چیف جسٹس آف پاکستان پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ برطرف وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک موجودہ جج سے جبری فیصلے لکھوائے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

صحافت میں حادثاتی طور پر آگئی تھی، اینکر پرسن ماریہ میمن

نواز شریف جنوری میں وطن واپس آرہے ہیں، سلیم صافی کی پیشگوئی

ایڈووکیٹ چارلس گتھری نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ جب مذکورہ جج صاحب بیان حلفی دیا گیا تو وہ ماربل آرچ موجود تھے۔

مشکوک حلف نامہ

جب سے یہ بیان حلفی 15 نومبر کو پاکستان کے ایک معروف اخبار میں منظر عام پر آیا ہے، اس کی صداقت پر کئی سوالات اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ اس تحقیقاتی رپورٹ کو شائع کرنے والے صحافی کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا گیا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں ہونے والی سماعت میں کہا گیا کہ سابق چیف جسٹس رانا شمیم ​​نے بیان کردہ الزامات لگا کر ’آئی ایچ سی کے تمام ججز پر شکوک و شبہات کو جنم دیا گیا ہے‘۔

عدالت نے اپنے حکم میں یہ بھی لکھا ہے کہ "گلگت بلتستان کے اعلیٰ ترین عدالتی عہدے پر فائز رہنے کے باوجود رانا محمد شمیم ​​کی تین سال سے زیادہ خاموشی ان کی ساکھ پر سنگین سوالات کو جنم دیتی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ خبر کی اشاعت کا وقت اہم ہے کیونکہ یہ ان اپیلوں سے متعلق ہے جو سماعت کے لیے مقرر کی گئی تھی”۔

رانا محمد شمیم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے ایڈووکیٹ جنرل کا خط

اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود اصل بیان حلفی ایک ماہ بعد جمع کرایا گیا۔ عدالت کے سامنے بیان دیتے ہوئے رانا محمد شمیم کا کہنا تھا کہ انہوں نے دی نیوز کے صحافی انصار عباسی کو بیان حلفی اخبار میں چھاپنے کے لیے نہیں دیا تھا اور بیان حلفی لندن میں محفوظ تھا۔

تین سال بعد بیان حلفی جاری تیار کرانے پر سابق چیف جج رانا محمد شمیم کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور کئی سنگین سوالات کو بھی جنم دیا تھا۔

1:  سابق جج کو ریٹائرمنٹ کے تین سال بعد حلف نامے پر دستخط کرنے پر کس چیز نے مجبور کیا؟

2: کیا نومبر کے دوسرے ہفتے میں لندن شہر کے دورے کے دوران انہوں نے نواز شریف سے ملاقات کی؟

3: انہوں نے حلف نامہ لندن میں نوٹری پبلک کے سامنے کیوں تیار کروایا اور دستخط حسن نواز کے دفتر میں کیوں کیے؟

4: اس حلف نامے سے کس کس فائدہ پہچانا مقصود تھا؟

5: اگر یہ حلف نامہ خفیہ کاغذ تھا تو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے کیوں ایسے وقت میں لیک کیا گیا جب ان اپیلوں سے متعلق سماعت مقرر کی گئی تھی۔ (جیسا کہ عدالت نے استفسار کیا)؟

6: کیا نواز شریف سے سابق چیف جج رانا محمد شمیم کے پہلے سے تعلقات تھے؟

7:  نواز شریف کی جانب سے اس حلف نامے کو کیوں ایسے وقت میں منظرعام پر لایا گیا جب پاکستان میں سیاسی بحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے؟

ماربل آرچ – اسٹین ہاپ ہاؤس، مسلم لیگ ن کا دفتر؟

اسٹین ہوپ پلیس، ماربل آرچ کے اندر بڑی بڑی کمپنیز کے دفاتر موجود ہیں جن میں "فلیگ شپ ڈویلپمنٹ لمیٹڈ” کا دفتر بھی موجود ہے جس کے حسن نواز شریف ہیں۔ یہ لندن میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت کا سب سے بڑا دفتر ہے۔

اسٹین ہاپ ہاؤس وہ جگہ ہے جہاں نواز شریف کی اہم ملاقاتیں ہوتی ہیں اور جہاں انہوں نے پاکستان روانہ ہونے اور خود کو حکام کے حوالے کرنے سے قبل اپنی آخری پریس کانفرنس کی تھی۔ چار ہفتوں تک طبی بنیادوں پر رہائی کے بعد لندن جانے والے نواز شریف دو سال گزرنے کے بعد بھی واپس نہیں ہیں، وہ وہ اسی دفتر سے اپنی پارٹی اور عوامی اجتماعات سے خطاب کرتے ہیں۔ سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق، سابق افغان قومی سلامتی کے مشیر اور پاکستان کے معروف نقاد حمد اللہ محب، دیگر عوامی شخصیات، فنکاروں اور صحافیوں جیسی عوامی شخصیات سے ان کی ملاقاتیں اسی مقام پر ہوتی رہی ہیں۔

متعلقہ تحاریر