خواتین محرم کے بغیر سفر نہیں کرسکتیں، طالبان

رواں ماہ کے شروع میں طالبان کے سپریم لیڈر کی جانب سے جاری ایک حکم نامے میں حکومت کی جانب سے خواتین کے حقوق کو نافذ کرنے کی ہدایت کی گئی۔

کابل: افغانستان کی عبوری حکومت کے طالبان حکام کا کہنا ہے کہ طویل فاصلہ طے کرنے کی خواہشمند خواتین کو اس وقت تک روڈ ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم نہیں کی جائے گی جب تک ان کے ساتھ کوئی قریبی رشتے دار مرد نہیں ہوگا۔

منسٹری آف پروموشن آف ورٹیو اینڈ پریوینشن آف وائس کی طرف سے جاری کردہ بیان میں گاڑیوں کے مالکان کو حکم دیا گیا کہ وہ ان خواتین کو سواری کی اجازت نہیں دیں گے جنہوں نے اسکارف نہیں پہنا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیے

نواز شریف کا بےنظیر بھٹو کی برسی پر اظہار تعزیت

حکومت دہشتگردوں سے ڈیل کی بھیک مانگ رہی ہے، بلاول بھٹو زرداری

15 اگست کو افغانستان پر طالبان کے دوبارہ قبضے کے بعد بہت سے خواتین کو پبلک سیکٹر میں کام کرنے سے روک دیا جبکہ لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد ثانوی تعلیم سے بھی محروم ہوگئی تھی۔

منسٹری کے ترجمان صادق عاکف مہاجر نے اتوار کے روز بریفنگ دیتےہوئے بتایا کہ 45 میل (72 کلومیٹر) سے زیادہ سفر کرنے والی خواتین کو اس وقت تک سواری کی سہولت فراہم نہیں کی جائے گی جب تک ان کے خاندان کا کوئی مرد نہیں ہوگا۔

سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر گردش کرنے والی خبروں میں لوگوں کی رہنمائی کے لیے کہا گیا ہےکہ وہ گاڑیوں میں میوزک بجانا بند کر دیں۔

گذشتہ ہفتے وزارت اطلاعات نے افغانستان کے ٹیلی ویژن چینلز سے کہا تھا کہ وہ ایسے ڈرامے اور صابن کے اشہتارات بند کردیں جن میں خواتین اداکارائیں شامل ہوں جبکہ خبریں پڑھنے والی خواتین اینکر کو حکم دیا گیا تھا کہ دوران نیوز وہ سر کو ڈھانپ کر خبریں پڑھیں گی۔

حجاب کے حوالے سے طالبان کی تشریح کے مطابق بالوں کو ڈھانپنے سے لے کر چہرے اور جسم کو ڈھانپنے تک شامل ہے۔ جبکہ افغان خواتین پہلے ہی سر پر اسکارف پہنتی ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر نے طالبان کے ان نئے رہنما اصولوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ "یہ نیا حکم بنیادی طور پر خواتین کو قیدی بنانے کے مترادف ہے۔”

رواں ماہ کے شروع میں طالبان کے سپریم لیڈر کی جانب سے جاری ایک حکم نامے میں حکومت کی جانب سے خواتین کے حقوق کو نافذ کرنے کی ہدایت کی گئی۔ لیکن اس حکم نامے میں بھی لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی کا ذکر نہیں تھا۔

1990 میں طالبان کے سابقہ دور حکومت میں خواتین کے حقوق کو بری طرح سے سلب کیا گیا تھا۔ خواتین کو باہر نکلنے کے لیے چہرے کو ڈھانپنے والا برقعہ پہننے کا پابند کیا گیا تھا۔ گھر سے باہر نکلنے کےلیے مرد کے ساتھ نکلنے کا پابند کیا گیا تھا ، کام کرنے اور خواتین کی تعلیم پر پابندی تھی۔

عالمی ڈونر تنظیموں اس بات پر بار بار زور دے رہی ہیں اگر طالبان کی عبوری حکومت نے خواتین کے حقوق بحال نہ کیے تو امداد بحال نہیں کی جائے گی۔

اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان کو اس موسم سرما میں "بھوک کے ایک بڑے ” کا سامنا ہے، اندازے کے مطابق 22 ملین شہریوں کو خوراک کی "شدید” کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

متعلقہ تحاریر