خاتون رپورٹر پر فقرہ کسنے کا معاملہ ، نوجوان کو لینے کے دینے پڑ گئے

صحافی سیمل ہاشمی پر مری کے بازار میں پروگرام کی ریکارڈنگ کے دوران جملے کسے گئے، کیا پاکستانی والدین بچوں کی تربیت میں ناکام ہوگئے؟

نیوز اینکر اور صحافی سیمل ہاشمی نے ٹویٹ کرتے ہوئے مری کے بازار میں ریکارڈ کیے گئے اپنے ایک پروگرام کی ویڈیو کلپ شیئر کی ہے، انہوں نے مری کے نوجوانوں کی بدتمیزی کو موضوع بنایا ہے۔

سیمل اپنے پروگرام کی ریکارڈنگ کے لیے بازار میں تھیں کہ وہاں موجود چند نوجوانوں اور دکانداروں نے ان پر آوازیں کسنا شروع کر دیں۔

دوسری ویڈیو میں ایک اور نوجوان آواز کسنے کے بعد منہ چھپانے لگ گیا، جیسے ہی سیمل اس کے پاس پہنچیں اور بات کرنے کی کوشش کی تو پہلے تو اس نے منہ چھپایا اور بعد ازاں پوری بات ہی بدل دی۔

یہ بھی پڑھیے

جنسی ہراسانی میں ملوث گورنر بھائی کی مدد : سی این این کا اینکرنوکری سے فارغ

مشعل خان موٹاپے کے باعث ساتھی طلبہ کی ہراسانی کا نشانہ بنیں

مری میں سیاحوں سے بدتمیزی کے قصے نئے نہیں ہیں، خواتین سے چھیڑ چھاڑ بھی عام ہے۔ اس حوالے سے ضلعی انتظامیہ اور پولیس کی کارکردگی پر سوال اٹھتے ہیں کہ وہ اس حوالے سے اب تک کوئی مضبوط لائحہ عمل کیوں نہیں بنا سکی؟

یہاں یہ بات بھی کہی جا سکتی ہے کہ شہریوں کی اخلاقی تربیت پولیس کا کام نہیں ہے، کافی حد تک یہ بات درست ہے۔

ہمیں مری سمیت ملک کے تمام شہروں اور علاقوں میں سیاحوں اور باالخصوص خواتین کے ساتھ ہونے والی ہراسانی کے واقعات کے تدارک کے لیے دو پہلوؤں پر کام کرنا ہوگا۔

ایک تو یہ کہ ان علاقوں میں کہ جہاں سیاح آتے ہیں، وہاں پولیس اپنی فورس میں ہراسانی کے کیسز سے نمٹنے کے لیے علیحدہ سیل قائم کرے اور شکایات ملنے پر فوری کارروائی کرتے ہوئے ملزمان کو گرفتار بھی کیا جائے اور ان پر جرمانہ کیا جائے۔

سیاح میں مقدمہ کی پیروی کرنے کی سکت نہ ہوگی کیونکہ وہ تو ویسے ہی کسی دوسرے شہر سے آیا ہوا ہے، اس لیے جرمانہ زیادہ بہتر آپشن ہے۔

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کمیونٹی پولیسنگ کے ذریعے شہریوں کو سیاحوں سے برتاؤ، خواتین سے گفتگو کرنے اور ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کے آداب سکھائے جائیں۔

ویسے تو یہ کام والدین کا ہوتا ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے والدین اپنے بچوں کی تربیت کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ تو اب مجبوراً ریاست ہی ماں کا کردار ادا کرتے ہوئے شہریوں کی اخلاقی تربیت کرے گی۔

متعلقہ تحاریر