عثمان مرزا کیس مذاق بن گیا:متاثرہ جوڑے کا خود کوپہچاننے سے بھی انکار

واقعے کے روز گھر سے نہیں نکلی  نہ ہی میرے ساتھ زیادتی ہوئی، دنیا میں ایک چہرے کے سات لوگ ہوتے ہیں، ویڈیو میں نظر آنے والی میری ہمشکل ہے، متاثرہ لڑکی کا بیان

عثمان مرزا جنسی ہراسانی کیس  مذاق بن گیا،گزشتہ سماعت پر بیان سے منحرف ہونے والے  متاثرہ جوڑے  کو عدالت میں پیش کردیا گیا۔متاثرہ جوڑے  نے وڈیو میں نظر آنے والے ملزمان کے بعد خود کوبھی پہچاننے سے انکار کردیا۔

لڑکی نے جرح کے دوران عدالت کو بتایا کہ  کہ وڈیو میں نظر آنے والی لڑکی کو نہیں جانتی،دنیا میں ایک چہرے کے سات لوگ ہوتے ہیں جو ویڈیو میں نظر آرہی ہے ان میں سے ایک ہے۔

یہ بھی پڑھیے
اسلام آباد فلیٹ بلیک میل کیس میں نیا موڑ، لڑکا لڑکی کا ملزمان کو پہچاننے سے انکار

سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے کے بعد اسلام آباد پولیس کا ایکشن

عثمان مرزا کی نس بندی کا مطالبہ زور پکڑنے لگا

اسلام باد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں  بدھ کو کیس کی سماعت  ہوئی ۔فاضل جج نے ملزمان کی 6 جولائی 2021کو وائرل ہونے والی ویڈیو عدالت میں بند کمرے میں چلانے کا فیصلہ کیا اور سماعت ان کیمرہ ڈیکلیئر کردی گئی۔ کمرہ عدالت سے غیر متعلقہ افراد اور صحافیوں کو باہر نکال دیا گیا۔

پراسکیوٹر رانا حسن عباس  نے مثاثرہ لڑکے اسد کے بیان پر جرح کی۔ اسد نے بتایا کہ  میری تعلیم ایف ایس سی  ہے اور کوئی کام نہیں کرتا۔ جب یہ واقعہ ہوا تو میں پراپرٹی کا کام کرتا تھا ،کیس شروع ہوا تو پراپرٹی کا کام چھوڑ دیا،میرے مالی حالات بہت خراب ہیں اور والدین میرا خرچہ اٹھارہے ہیں ، مقدمے کے اندراج کے بعد تھانہ گولڑہ میں 4 سے 5 دفعہ گیا تھا۔ اسد  نے  بتایا کہ 8 جولائی کو میں نے بیان ریکارڈ نہیں کرایا بلکہ انسپکٹر شفقت نے صرف سادہ پیپر پر دستخط لیے تھے ۔

پراسیکیوٹر نے استفسار کیا کہ  بیان حلفی میں آپ کہتے ہیں ویڈیو میں نظر آنے والے وہ ملزمان نہیں، کیا آپ کو واقعہ یاد ہے،اسد رضا نے بتایا کہ  جی بالکل مجھے وہ واقعہ یاد ہے۔ پراسیکیوٹر نے استفسار کیا کہ  کیا آپ بتا سکتے ہیں اس دن کیا ہوا تھا۔لڑکے نے کہا کہ ابھی میں اس واقعے کی تفصیل نہیں بتا سکتا اور  نہ ہی یہ  یاد ہے کہ میں نے اور سندس نے کس رنگ کی شرٹ پہن رکھی تھی۔

پراسکیوٹر رانا حسن عباس نے متاثرہ لڑکی پر ان کیمرہ پروسیڈنگ میں جرح مکمل کرلی،50 منٹ جرح ہونے کے بعد  کمرہ عدالت کھول دیا گیا ۔ملزم عطا الرحمان کے وکیل ظفر وڑائچ اور  مرکزی ملزم  عثمان مرزا  نے منحرف گواہان متاثرہ لڑکا لڑکی سے کوئی سوال نہیں  کیا۔ بعد ازاں ملزم عمر بلال کے وکیل شیر افضل مروت  نے متاثرہ لڑکی سندس سے جرح کی۔لڑکی نے بتایا کہ  میں  نے  بی ایس کمپیوٹر سائنس کررکھا ہے ،واقعے  کے روز کسی نے میرے ساتھ  زیادتی نہیں کی،اس  روز اپارٹمنٹ نہیں گئی گھر میں تھی،وڈیو میں نظر آنے والی لڑکی کو میں نہیں جانتی نہ ہی وائرل وڈیو دیکھی ہے۔لڑکی کے بیان پر جج نے کمرہ عدالت میں دوبارہ وڈیو چلانے کا حکم دے دیا  جبکہ صحافیوں اور غیرمتعلقہ افراد کو کمرہ عدالت سے نکال دیا گیا۔

  لڑکی نے مزید بتایا کہ  میں نے عمر بلال مروت سے ایک کروڑ کا مطالبہ نہیں کیا، وقوعہ کے دن میں بے روزگار تھی ، جب میں  وڈیو میں جب نظر ہی نہیں آرہی تو  ملک بھر میں میرے حق میں چلنے والی مہم کا اس  سے کوئی تعلق بھی نہیں بنتا۔میں مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کرائے گئے 164 کے بیان کے علاوہ کسی بیان کو نہیں جانتی۔اس موقع پر وکیل نے استدعا کی کہ اس خاتون اور اس کے خاوند کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے ، یہ پورے نظام انصاف کو جھٹلا رہی ہے۔

لڑکی نے مزید بتایا کہ  پولیس نے مجھ سے سادہ کاغذ پر دستخط کروائے ۔وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ آپ نے پہلے اپنے بیان میں کہا تھاکہ یہ میرا انگوٹھا ہی نہیں ہے۔جس پر لڑکی نے کہا کہ میں نے کہا تھا وائٹ پیپر پر انگھوٹھے لگوائے گئے۔

لڑکی نے مزید بتایا کہ  وڈیو وائرل ہونے کے بعد میرا اور اسد رضا نکاح ہوااور  وڈیو وائرل ہونے سے پہلے رشتہ آیا تھا،شادی سے پہلے میں اور اسد فیملی کے سامنے ملاقات کرتے تھے،میں اسد رضا کے ساتھ رات گزارنے کے لیے اپارٹمنٹ نہیں گئی تھی۔ متاثرہ لڑکی  نے بتایا کہ  ہماری شادی پسندسے نہیں بلکہ خاندان کی رضامندی سے ہوئی ،اسد میرا رشتے دار  نہیں تھا ،میں نہیں جانتی کہ  وائرل وڈیو کی وجہ سے کچھ لوگ جیل میں ہیں،  میں نے کوئی بیان ہی نہیں دیا مجھے کچھ پتہ نہیں۔لڑکی نے مزید بتایا کہ ایف آئی اے نے جس ویڈیو کو درست قرار دیا میں اسے نہیں جانتی،میری اس کیس کے حوالے سے کسی بھی پولیس افسر سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی،نہ ہی میں آئی جی اسلام آباد اور دوسرے کسی پولیس افسر سے ملی ہوں ۔

لڑکی کا کہنا تھا کہ میں نے آج تک کسی سے کوئی پیسے  نہیں لیے بیرون ملک جانے کے لیے کسی این جی او سے رابطہ نہیں کیا، میں نہیں جانتی پولیس نے انگوٹھا اور دستخط کس جگہ پر لئے تھے،دنیا میں ایک چہرے کے سات لوگ ہوتے ہیں جو ویڈیو میں نظر آرہی ہے ان میں سے ایک ہے،میں والدین کے ساتھ اسلام آباد میں آتی رہتی ہوں۔

ملزم کے وکیل نے کہا کہ  اب آپ اپنے والدین کو ساتھ ملا رہی ہیں اگر اس روز بھی وہ ساتھ ہوتے تو بات یہاں تک نہ پہنچتی۔لڑکی نے کہاکہ  ایسے سوال کیوں پوچھے جا رہے ہیں جو متعلقہ نہیں،میرے چچا کے میزان بینک کے اکاؤنٹس میں  ایک کروڑ 75 لاکھ روپے ٹرانسفر نہیں ہوئے،میرے موبائل میں سوشل میڈیا ایپلی کیشنز موجود ہیں ،مگر ہاؤس وائف ہونے کی وجہ سے انہیں استعمال کرنے کا وقت نہیں ہوتا۔پراسیکیوشن اور ملزمان  کے وکلا نے لڑکی کے بیان پر جرح مکمل کرلی۔

بعد ازاں ملزم  کے وکیل شیر افضل مروت  نے متاثرہ لڑکے پر جرح شروع کی۔متاثرہ اسد رضا نے موقف اپنایا کہ ویڈیو میں ہونے والی زیادتی جیسا ہمارے ساتھ کوئی واقعہ  نہیں ہوا،بیان بدلنے کے کوئی پیسے نہیں لیے،میں عثمان مرزا سمیت دیگر ملزمان کو نہیں جانتا، واقعے کے روز میں اس اپارٹمنٹ پرنہیں گیا تھا،پولیس نے انگھوٹھےاور  دستخط لینے سے متعلق نہ  بتایا نہ  ہم نے پوچھا،ملزمان نے عدالت میں اپنے حق میں  بیان حلفی دینے کا نہیں کہا ، بیان حلفی دینا میرا اپنا فیصلہ تھا۔

لڑکے نے بتایا کہ بیرون ملک جانے کا پروگرام ابھی نہیں بنایا،پانچ سال سے پروگرام بنا رہے تھے،ویڈیو میں نظر آنے والا میں نہیں ہوں ، وکیل نے بار بار سوال کیا کہ ویڈیو میں آپ کی طرح کا نظر آنے والا کون ہے ؟اسد نے بتایا کہ  میں نہ  خود نہ ایف آئی اے رپورٹ  کے حوالے سے جانتا ہوں کہ وڈیو میں نظر آنے والا کون ہے، چھ جولائی2021 سے 11 جنوری 2022 تک کبھی نہیں کہا کہ یہ ہمارا کیس  ہے،ہم نے شروع سے ہی کہا تھا کیس نہیں کرنا چاہتے،وکیل نے استفسار کیا کہ ایف آئی آر کے اندراج پر پولیس کو کیوں نہیں بتایا کہ یہ کیس ہمارانہیں ہے؟ متاثرہ لڑکے نے کہا کہ میں جواب نہیں دینا چاہتا۔

بیان سے منحرف ہونےو الے متاثرہ جوڑے پر جرح مکمل ہونے کے بعد ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے دونوں  کو جانے کی اجازت دے دی ۔عدالت نے آئندہ سماعت پر کیس کے تفتیشی افسر کو بیان ریکارڈ کرانے کے لیے طلب کر لیا۔کیس کی مزید سماعت 25 جنوری کے لیے ملتوی کردی گئی۔

متعلقہ تحاریر