کراچی کے ساتھ لاپرواہ رویہ ملک کے مفاد میں نہیں، یونس ڈھاگا

ایکسپریس ٹریبیون کیلیے تحریر کیے گئے کالم میں ماہر معاشیات نے کہا کہ کراچی کو 300 ارب روپے کے مقابلے میں صرف 38 ارب روپے دیئے گئے۔

پچھلی مردم شماری کے مطابق پاکستان کے آٹھ شہر ایسے ہیں جن کی آبادی 10 لاکھ سے زیادہ ہے۔ پنجاب میں ایسے 5 شہر ہیں، سندھ میں 2 جبکہ خیبرپختونخوا میں ایک۔ ہماری معیشت کا مستقبل اس طریقہ کار پر منحصر ہے جس کے ذریعے ہم ان شہروں کو عالمی معیشت میں مقابلے کے قابل بنائیں گے۔

ان خیالات کا اظہار ایف پی سی سی آئی کے چیئرمین یونس ڈھاگا نے ایکسپریس ٹریبیون کیلیے تحریر کردہ کالم میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی 10 فیصد آبادی کراچی میں رہتی ہے۔

کراچی اپنی برآمدات سے ہونے والی آمدنی کا نصف فیصد، وفاقی آمدنی میں 56 فیصد اور سندھ کی آمدنی میں 96 فیصد حصہ ڈالتا ہے۔ صرف کراچی شہر سروسز کی مد میں اتنا سیلز ٹیکس ادا کرتا ہے جو کہ پورے صوبہ پنجاب کے سیلز ٹیکس کے برابر ہے۔

ورلڈ بینک نے اپنی 2017 کی رپورٹ میں کہا کہ کراچی کو انفراسٹرکچر کی خامیاں دور کرنے کے لیے 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 45 شہریوں کیلیے بس کی ایک نشست مختص ہے، اس طرح شہر میں سفر کرنا مشکل ترین ہے۔ زیادہ تر گھروں میں نجی ڈیلرز سے پانی کے ٹینکر اضافی قیمتوں پر خریدے جاتے ہیں۔

1960 کے بعد سے سیوریج کے نظام کی مناسب دیکھ بھال نہیں کی گئی۔ صنعتی فضلہ براہ راست سمندر میں ڈالا جاتا ہے۔ روزانہ 12000 ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے جس کا 60 فیصد کچرا کنڈی تک نہیں پہنچتا۔

یونس ڈھاگا کا کہنا تھا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اس رپورٹ پر 2020 میں توجہ دی جب شہر میں تباہ کن بارش ہوئی، دونوں حکومتوں نے کراچی کیلیے 1100 ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا۔

یہ رقم کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کے تحت تین سال کی مدت میں خرچ کی جائے گی۔ ڈیڑھ سال گزرنے کے باوجود اس پلان پر کوئی خاطر خواہ عمل درآمد نہیں کیا گیا۔

یونس ڈھاگا نے کہا کہ اگر ہم معاشی ترقی اور خوشحالی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو کراچی کے ساتھ یہ لاپرواہ رویہ ملک کے مفاد میں نہیں، کراچی مستقل تباہی کے دہانے پر ہے جو کہ صوبے کے امن اور اتحاد کیلیے بھی ٹھیک نہیں۔

کوئی صوبہ کیسے آئین کے تحت اپنے حقوق اور این ایف سی ایوارڈ میں اپنے حصے پر دعویٰ کرسکتا ہے کہ جب وہ خود آئین کے آرٹیکل 140A کی خلاف ورزی کر رہا ہے؟

آرٹیکل 140A کے تحت صوبائی حکومت پر لازم ہے کہ سیاسی، انتظامی اور مالی ذمہ داری اور اختیارات بلدیاتی حکومت کے منتخب نمائندوں کو منتقل کیے جائیں۔

کراچی کو 250 سے 300 ارب روپے ملنا چاہیے تھے لیکن پچھلے سال اسے صرف 38 ارب روپے دیئے گئے، کراچی کے مقابلے میں بدین کو 18 ارب روپے اور عمرکوٹ کو 20 ارب روپے دیئے گئے۔

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی جانب سے شہر میں کچرا اٹھانے کے ٹھیکے دیئے جانے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ میونسپل کے کام شہری حکومت کو کرنے چاہئیں جیسا کہ پانی کی فراہمی، سیوریج کا نظام، میونسپل ٹیکس اور ریگولیشن، ماسٹر پلان اور بلڈنگ کنٹرول، سٹی ڈیویلپمنٹ، شہر کا ٹرانسپورٹ سسٹم وغیرہ، جائیداد اور گاڑیوں کی رجسٹریشن کا ٹیکس بھی ضلعوں کو منتقل ہونا چاہیے۔

متعلقہ تحاریر