امریکی فوج کے ظلم کی انتہا، شام کے "نان اسٹرائیکر زون” پر بم گرا دیئے

نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق حملہ اس وقت کیا گیا جب اسلامی اسٹیٹ (داعش) نے شام کے علاقے پر قبضہ کررکھا تھا اور ڈیم کے آپریشن کی نگرانی کررہا تھا۔

2017 میں شام کے سب سے بڑے ڈیم "نان اسٹرائیک” زون کو امریکی اسپیشل آپریشنز ڈرون یونٹ نے بمباری کا نشانہ بنایا۔ اس کے باوجود کہ یہ مقام امریکی فوج کی "نان اسٹرائیک” کی فہرست میں شامل ہے کیونکہ ڈیم کے آس پاس لاکھوں لوگ رہائش پذیر ہیں اور حملے کی صورت میں انہیں سیلاب کے ممکنہ خطرات کا سامنا کرنا پڑسکتا تھا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹاسک فورس 9 کے دو سابق سینئر اہلکاروں نے بتایا ہے کہ آپریشنل یونٹ نے حملے میں کچھ بڑے روایتی بموں کا استعمال کیا، جن میں سے ایک 2,000 پاؤنڈ وزنی تھا۔

یہ بھی پڑھیے

امریکیوں کی بڑی تعداد صدر بائیڈن کے اقدامات سے ناخوش

انڈونیشیا نے دارالحکومت تبدیل کرنے کی تیاری کرلی

نیویارک ٹائمز نے سابق اہلکاروں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ ٹاسک فورس 9 نے 26 مارچ 2017 کو دریائے فرات کے ساتھ تعمیر "تاباقا” ڈیم پر حملہ کیا تھا۔ امریکی فوج کی  ایک پرانی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اس ڈیم پر حملے سے آس پاس کے تمام دیہاتوں کو سیلات کے سامنا کرنا پڑسکتا ہے جس سے ہزاروں افراد ہلاک ہو سکتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق حملہ اس وقت کیا گیا جب اسلامی اسٹیٹ (داعش) نے شام کے علاقے پر قبضہ کررکھا تھا اور ڈیم کے آپریشن کی نگرانی کررہا تھا۔

نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق امریکا نے اس حملے کا ذمہ دار داعش ، روس اور شامی حکومت کو قرار دیا تھا ، تاہم لیفٹیننٹ جنرل سٹیفن جے ٹاؤن سینڈ نے اس الزام کو "پاگل رپورٹنگ” قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔

لیفٹیننٹ جنرل سٹیفن جے ٹاؤن سینڈ نے دھماکے کے بعد کہا تھا کہ تاباقا ڈیم اتحادیوں کو ہدف نہیں تھا۔

مشرق وسطیٰ میں جنگی کارروائیوں کی نگرانی کرنے والے امریکی فوجی کمانڈ سینٹر کی جانب سے فوری طور پر تبصرے کے لیے رابطہ ممکن نہیں ہوسکا تھا۔ تاہم ایجنسی کے ایک ترجمان نے دی ٹائمز کو بتایا تھا کہ ڈیم کی دیواروں کے بجائے صرف ڈیم کے آپریٹنگ ٹاورز کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ ایک جانب قسمت اور دوسری جانب مقامی انجینیئروں کی ٹیم کی بروقت کارروائی سے ڈیم کو ایک بڑے سیلاب سے بچا لیا گیا تھا۔

جائے وقوعہ پر موجود شامی انجینئروں نے ٹائمز کو بتایا کہ گرائے گئے بموں میں سے ایک کمپلیکس کی پانچویں منزل پر گرا تھا جسے وقت پر ناکارہ بنا دیا گیا تھا۔

دو سابق ڈرون آپریٹرز نے بتایا کہ بمباری کے بعد ڈیم کے آپریشن کا اہم سازوسامان تباہ ہو گیا تھا، اور ڈیم کے ذخائر میں 50 فٹ اضافہ ہوا تھا جو تقریباً ڈیم سے چھلک رہا تھا۔

رپورٹ کے مطابق شام میں متحارب فریقوں کو عارضی طور پر جنگ بندی پر راضی کیا گیا تھا تاکہ انجینئرز کو ڈیم کے کام کو بحال کرنے اور تباہی سے بچانے کی اجازت دی جا سکے۔

ڈیم کے ایک سابق ڈائریکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر "دی ٹائمز” کو بتایا کہ "تباہی ناقابل تصور تھی۔” "ہلاکتوں کی تعداد پوری جنگ کے دوران مرنے والے شامیوں کی تعداد سے زیادہ ہو تھی۔”

متعلقہ تحاریر