موت قبول ہے اولاد کی بھوک نہیں!افغانی اپنے اعضا اور بچے بیچنے پر مجبور

غربت و افلاس کا شکار افغان شہری پیٹ کی آگ بجھانے کیلیے اپنے اعضا اور بچے فروخت کرنے پر مجبور ہوگئے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق افغانستان کی 4 کروڑ آبادی میں سے نصف سے زائد کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا ہے جبکہ 90 لاکھ افراد قحط کی صورتحال سے دوچار ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

امریکی خاتون والمارٹ سے بچہ خریدنے کی خواہش پر گرفتار

میٹریکس برائڈ: بھارتی دلہن کی لچک نے مہمانوں کو حیران کردیا

 

برطانوی اخبار گارجین کی رپورٹ کے مطابق  ہرات میں قائم آئی ڈی پیز کے کیمپ میں مقیم 50سالہ خاتون دلارام رحمتی نے اپنے دو معذور بچوں اور بیمار شوہر کے علاج معالجے کیلیے چند ماہ قبل  اپنی 6 سالہ اور 8 سالہ دو بیٹیوں کو ایک لاکھ افغانی )تقریباً 700 برطانوی پاؤنڈ) میں فروخت کردیا تھا۔ تاہم بلوغت کو پہنچنے تک ان کی بیٹیاں ان کے پاس ہی رہیں گی اور پھر اجنبیوں کے حوالے کردی جائیں گی۔

واضح رہے کہ افغانستان میں مستقبل کی شادی کیلیے بیٹیوں کو کمسنی میں فروخت کرنا معمول کی بات ہے لیکن  انہیں بلوغت کو پہنچنے تک گھر میں پالا جاتا ہے تاہم معاشی بدحالی میں اضافے اور خوراک کی ضروریات پوری کرنے کی سکت نہ رکھنے کے باعث والدین اب کم عمری میں ہی بچیوں کو اجنبیوں کے حوالے کرنے پر مجبور ہیں۔

تاہم کمسن بیٹیوں کی فروخت کےباوجود رحمتی کے مسائل حل نہیں ہوئے اور قرض اور بھوک کے ہاتھوں مجبور ہوکر انہوں نے اپنا ایک گردہ بھی فروخت کردیا۔اقوام متحدہ کے مطابق  افغانستان  ”انسانی بحران اور اقتصادی تباہی“ کے دہانے پر ہے۔ افغانستان میں اقوام متحدہ  کے سفیر کا کہنا ہے کہ افغانستان اپنی تاریخ کے بدترین انسانی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ خشک سالی،کرونا وبا  اور اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد لگائی گئی اقتصادی پابندیوں نے ملک کی معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں۔ مہنگائی میں ڈرامائی اضافہ، خوراک کی قیمتوں میں اضافے کا نتیجہ ہے۔

گارجین کے مطابق  افغانستان میں کچھ عرصے سے گردوں کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے  لیکن جب سے طالبان نے اقتدار سنبھالا ہے اعضا کی غیر قانونی تجارت کی قیمت اور حالات بدل گئے ہیں۔ ایک گردے کی قیمت جو کبھی 3500سے 4ہزار ڈالر  تک تھی اب گر کر1500ڈالر سے بھی کم ہوگئی ہے لیکن  قیمتوں میں بڑی کمی کے باوجوداعضا بیچنے کے خواہشمند افراد کی تعداد تیزی سے  بڑھ رہی ہے۔دلارام رحمتی نے اپنا دایاں گردہ ڈیڑھ لاکھ افغانی (ایک ہزار برطانوی پاؤنڈ) میں فروخت کیا لیکن آپریشن  کے بعد وہ روبصحت نہیں ہوسکیں اور  اب اپنے شوہر کی طرح وہ بھی بیماررہنے لگی ہیں  ہیں اور  ڈاکٹر کے پاس جانے کے لیے پیسے نہیں بچے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کے مطابق  افغانستان کی 4کروڑ آبادی میں سے نصف سے زیادہ کوخوراک کی انتہائی کمی  کا سامنا ہے، اور ان میں سے تقریباً 90لاکھ افراد کو قحط کا خطرہ ہے۔ افغانوں کی  اکثریت کی پاس پیٹ کی آگ بجھانے کیلیے گردے فروخت کرکے پیسے کمانا ہی واحد ذریعہ ہے ۔

رحمتی خاندان کے ساتھ آئی ڈی پیز کی بستی میں مقیم27سالہ صلاح الدین طاہری بھی اپنے 4بچوں کی خوراک کی ضروریات پوری کرنے کیلیے اپنے گردے  کے خریدار کی تلاش میں ہیں۔وہ کہتے ہیں   ”ہمیں چاول کھائے مہینوں گزرچکے  ہیں۔ ہمیں روٹی اور چائے مشکل سے ملتی ہے۔ ہفتے میں تین راتیں ہم رات کا کھانا کھانے کے متحمل نہیں ہو سکتے“۔صلاح الدین قابل استعمال کچرا جمع اور فروخت کرکے روزانہ بمشکل 5 روٹیوں کے لیے رقم جمع کرپاتے ہیں۔

صلاح الدین  کہتے ہیں”میں کئی دنوں سے ہرات کے نجی اسپتالوں کےچکر لگارہاہوں ، میں نے اسپتالوں کو کہہ رکھا ہے کہ  اگر انہیں  گردے کی فوری ضرورت ہو تومیں  اسے مارکیٹ سے  کم قیمت پر فروخت کر سکتا ہوں، لیکن مجھے  کوئی جواب نہیں ملا“۔وہ کہتے ہیں کہ ”مجھے اپنے بچوں کو کھانا کھلانا ہے، میرے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے“۔

دلارام رحمتی کے آپریشن کو دو ماہ گزر چکے ہیں اوران کے  گردے کی فروخت سے حاصل رقم پہلے ہی قرض کی ادائیگی میں پوری ہوگئی  جبکہ آپریشن کے بعد ان کی صحت بدستور خراب ہے۔ وہ کہتی ہیں  ”میں بہت بیمار ہوں، زخم میں انفیکشن کے باعث چل پھر نہیں سکتی ،گردے کے خریدار نے صرف آپریشن ، اسپتال میں دو راتوں کے قیام اور کی پہلی دوائی کا بل ادا کیا ہے “۔

ٹرانسپلانٹ کے دن رحمتی بیمار تھیں اور ڈاکٹروں نے آپریشن کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ کہتی ہیں”میں ٹھیک سے سانس نہیں لے پا رہی تھی ، اس لیے ڈاکٹرز نے مجھے اسپتال کے بستر سے نیچے اتاردیا تھا، لیکن میں واپس آ گئی۔ میں نے انہیں بتایا کہ مجھے موت قبول ہے لیکن میں اپنے بچوں کو بھوکا اور بیمار دیکھنا قبول نہیں کر سکتی“۔

متعلقہ تحاریر