یوکرین پر روس کے حملے سے عالمی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

روسی فوج کے حملے کے تناظر میں صرف توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں دنیا کو تین سالوں میں دوسری کساد بازاری میں ڈال سکتی ہیں۔

روس یوکرین تنازعہ ، جس نے دوسری عالمی جنگ کے بعد سے یورپ کے سب بڑے مسئلے کا روپ دھار لیا ہے ، کم از کم مختصر مدت میں کورونا وائرس سے مضبوط عالمی معیشت کی بحالی کی امیدوں کو جنگ نے توڑ کر رکھ دیا ہے۔

جمعرات کو یوکرین پر روس کے حملے کے بعد سے عالمی اسٹاک مارکیٹیں شدید مندی کی لپیٹ میں آگئی ہیں، جبکہ اس بحران کی وجہ سے جغرافیائی سیاسی تناؤ سے افراط زر میں اضافہ ہورہا ہے اور سپلائی چین بھی رکاوٹوں کا شکار ہے۔

یہ بھی پڑھیے

عمران خان کا کامیاب دورہ روس، بھارتی تجزیہ کار مودی پر برس پڑے

یوکرین پر جارحیت کے بعد روس اور مغربی دنیا آمنے سامنے

اقتصادی ماہرین نے کہا کہ روس کے ساتھ کم تجارت کے براہ راست اثرات مرتب ہوں گے۔ امریکہ اور یورپی یونین کی طرف سے ماسکو پر عائد اقتصادی پابندیاں سے صارفین کے اعتماد کو بری طرح زک پہنچے گی جبکہ گندم کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے اثرات پوری دنیا پر پڑیں گے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اثرات انتہائی سنگین نوعیت کے ہو سکتے ہیں۔ اگر توانائی کی قیمتیں بڑھتی رہیں، مثال کے طور پر، یہ آسانی سے عالمی معیشت کو تین سالوں میں دوسری کساد بازاری میں ڈال سکتی ہے۔

ماہرین اقتصادیات نے کہا کہ درج ذیل مسائل مستقبل قریب میں آسکتے ہیں۔

جنگ کتنی بری ہوتی ہے؟

روسی صدر ولادی میر پیوٹن کا مطلوبہ اختتامی کھیل واضح نہیں ہے۔ تجزیہ کار کئی منظرناموں پر غور کر رہے ہیں جن میں کیف میں حکومت کی تبدیلی سے لے کر ماسکو دوست حکومت تک ۔ یورپ اور اس سے باہر کی بین الاقوامی سرحدوں کو دوبارہ کھولنے کی کوششیں بھی شامل ہیں۔

بیرنبرگ بینک کے چیف اکنامسٹ ہولگر شمائیڈنگ کا کہنا ہے "سب سے پہلے غور کرنے کی بات یہ تھی کہ جنگ کتنی بری ہوتی ہے؟- جو آنے والے دنوں میں مالیاتی اور توانائی کی منڈیوں میں ممکنہ ردعمل کا تعین کری گی۔

 BlueBay Asset Managementکے ماہر اقتصادیات ٹم ایش نے اس بات کی نشان دہی کی ہے کہ "چین نے روس کو فوجی کارروائیوں سے ہونے والے نقصانات کو سنبھالا دینے کے لیے مدد کی آمادگی کا اشارہ دیا ہے۔”

ٹم ایش کا کہنا ہے کہ اس ساری جنگ سے بیجنگ کے اپنے مفادات وابسطہ ہیں کیوں کہ چین تائیوان تک اپنے قبضے کو توسیع دینا چاہتا ہے۔

کیا عالمی معیشت تبدیل ہوتے جغرافیائی تناظر کو برداش کر پائی گی؟

جمعرات کے روز یوکرین پر روس کے حملے کے بعد دنیا بھر کی عالمی منڈیاں اور اسٹاک مارکیٹیں کریش کر گئیں تھی جبکہ اس کے مزید بھیانک نتائج برآہو سکتے ہیں۔ عالمی معیشت اس وقت شدید جھٹکوں کی لپیٹ میں ہے۔ اگر جنگ لمبی ہو گئی مالیاتی بحران شدید سے شدید تر ہوتا جائے گا۔ کارپوریٹ سیکٹر کے ساتھ ساتھ گھریلو صنعتوں بھی شدید بحران کا شکار ہوسکتی ہیں۔

روس کے حملے سے مارکیٹوں پر مندی کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ بہت سے ابھرتی ہوئی معیشتیں ہچکولے لے رہی ہیں۔ بہت ساری کمپنیاں اور کارپوریٹ مارکیٹیں جنگ کی طوالت کو زیادہ دیر برداشت نہیں کر پائیں گے۔ یہ وہ کارپوریٹ کمپنیاں ہیں جو براہ راست یوکرین اور روس سے کاروبار کرتی ہیں۔

ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے اگر ابھرتی ہوئی معیشتوں نے ہچکولے لینے شروع کردیے ہیں تو پھر گھانا، ترکی، مصر اور پاکستان میں مالیاتی طور پر کمزور ممالک کیسے اس سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

شکاگو یونیورسٹی کے بوتھ اسکول آف بزنس کے ڈپٹی ڈین اور فیڈرل ریزرو کے سابق گورنر رینڈی کروزنر نے کہا کہ کساد بازاری کے خطرات منڈلا رہے جس کے اثرات دیرپا ہوں گے ۔ فیکٹریوں کی پیداواری صلاحیت بری طرح سے متاثر ہوگی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یوکرین پر روسی حملے کے بعد سے تمام ممالک کے مرکزی بینکوں پر شرح سود بڑھانے کے لیے دباؤ بڑھ سکتا ہے۔ جبکہ امریکی فیڈرل ریزرو نے گزشتہ ماہ اشارہ دیا تھا کہ مارچ سے مہنگائی پر قابو پانے کے لیے شرح سود میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ تاہم اضافہ کتنے فیصد ہوگا یہ نہیں بتایا گیا تھا۔

متعلقہ تحاریر