مفتاح اسماعیل نے آئی ایم ایف یاترا سے قبل ہاتھ کھڑے کردیئے

وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ ہماری آئی ایم ایف سے یہ درخواست ہوگی کہ فنڈ کا پروگرام بحال کیا جائے اور موجودہ حالات میں عوام پر کم از کم بوجھ ڈالا جائے۔۔

وزیر خزانہ امریکا روانہ، کہتے ہیں کہ  پٹرول اور بجلی کی سبسڈی پر آئی ایم ایف راضی نہیں، کچھ سوچنا پڑے گا، کیا ڈاکٹر مفتاح اسماعیل آئی ایم ایف کے سامنے گٹھنے ٹیکنے گئے ہیں۔

نئی حکومت 28 فروری کے سابق وزیر اعظم عمران خان کے ریلیف اعلانات پر یو ٹرن لینے کے لیے موقع کی تلاش میں ہے اور بجلی پر 5 روپے یونٹ اور پٹرول پر 22 روپے اور ڈیزل پر 52 روپے سبسڈی دینے کے فیصلے پر مزید کاربند نہیں رہ سکتی۔

وزیر خزانہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل ای سی ایل سے نام نکلنے پر امریکا روانہ ہوگئے ہیں۔ جہاں وہ آئی ایم ایف حکام سے ملاقاتیں کریں گے اور انہیں معاشی صورت حال سے آگاہ کریں گے۔

یہ بھی پڑھیے

سرسید یونیورسٹی کے اساتذہ نے 70 خاندانوں میں راشن تقسیم کردیا

زاہد اکرم درانی بلامقابلہ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی منتخب ہو گئے

اپنے دورہ امریکا سے قبل انہوں نے اسلام آباد میں طویل ترین پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے سابق حکومت کی معاشی پالیسی کو آڑھے ہاتھوں لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی کابینہ نے وزارت  خزانہ کے علم میں لائے بغیر اپنے طور پر ہی 200 یونٹ سے لیکر 700 یونٹ تک بجلی خرچ کرنے والے صارفین کیلئے بجلی کے نرخوں میں 5 روپے فی یونٹ کمی کا فیصلہ کیا اور یہ فیصلہ بھی کیا کہ یہ کمی 30 جون 2022 تک کیلئے ہے۔ اس مقصد کیلئے کم و بیش 126 ارب روپے مختص کر دیئے گئے لیکن اس کی اقتصادی رابطہ کمیٹی سے منظوری نہ گئی نہ رقم منظور کی گئی۔

کابینہ نے وزارت خزانہ کی رضامندی کے بغیر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو 30 جون 2022 تک برقرار رکھنے اور پیٹرول اور ڈیزل پر 10 روپے کی سبسڈی دینے کا بھی فیصلہ کیا اس مقصد کے تحت 130 ارب روپے کی سبسڈی رکھی گئی اور پیٹرولیم لیوی کی کمی کو معطل کر کے جنرل سیلز ٹیکس کی شرح میں بھی نمایاں کمی کی گئی جس کے سبب اس ٹیکس سبسڈی کے کیوجہ سے ریونیو کی 95 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ بجلی کے معاملہ پر آئی ایم ایف کا وفد کوئی زیادہ سخت موقف نہیں رکھتا تاہم پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو 30 جون تک منجمد رکھنے کیلئے اپریل کے مہینے کیلئے 67 ارب روپے کی سبسڈی مختص کر دی گئی ہے مئی کیلئے 96 ارب روپے اور جون کیلئے مزید 96 ارب روپے کی سبسڈی دینا ہوگی اگر یہ پیسے دے دیئے گے تو ہمارہ اضافی بجٹ خسارہ 1800 ارب روپے سے تجاوز کر جائے گا۔

 اگر ہم ڈیزل پر سبسڈی کو برقرار رکھتے ہیں تو فی لیٹر 51 روپے 52 پیسے فی لیٹر سبسڈی دینا پڑے گی اور اگر اس سبسڈی کو ختم کرتے ہیں تو ملک بھر میں لائے لیجائے جانے والے کھانے پینے کی اشیاء کی ٹرانسپورٹیشن جارجز بڑھنے سے مہنگائی بڑھے گی جو غریبوں کیلئے مشکلات کا سبب بنے گی ۔

ڈاکٹر مفتاح نے کہا کہ  پیٹرول اس وقت150روپے لیٹر ہے اس  میں 30روپے کا اضافہ کرنے، اس پر17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس لگانے اور اس پر 30روپے فی لیٹر پیٹرولیم لیوی لگانے جیسی شرائط کا سامنا ہے اس طرح تو قیمت 234روپے فی لیٹر تک پہنچ سکتی ہے ۔

اس قدر بھاری اخراجات  سے قبل خزانے کی حالت نہ دیکھی گئی اس سال روپیہ مالیت میں آمدن اور اخراجات میں بیلنس25 سو ارب روپے تھا کو اب1300ارب روپے کے اضافی اخراجات  تک جا پہنچا ہے جس کے سبب پاکستان کا بجٹ خسارہ ملکی تاریخ میں پہلی بار 3400 ارب روپے سے بڑھ کر 5600ارب روپے تک پہنچنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔  یہی آئی ایم ایف کی سب سے بڑی پریشانی اور پروگرام کی بحالی  میں رکاوٹ ہے  ۔

ڈاکٹر مفتاح نے کہا کہ ہماری آئی ایم ایف سے یہ درخواست ہوگی کہ فنڈ کا پروگرام بحال کیا جائے اور موجودہ حالات میں عوام پر کم از کم بوجھ ڈالا جائے۔۔

 وزیر خزانہ نے بتایا کہ ہم آئی ایم ایف  کی مینجمنٹ سے پوچھیں گے کہ وہ ہم سے فی الوقت اور بجٹ میں کیا چاہتے ہیں اور ان کے ٹایم فریم پر بات چیت ہوگی کیونکہ ہمیں پتہ ہے کہ ہم یہ بجٹ خسارہ 1300ارب روپے سے بمشکل نیچے نہیں لا سکیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف فوری طورپر 150ارب روپے کی کارپوریٹ ٹیکس کی چھوٹ کی واپسی کا خواہاں تھا لیکن ہم نے اس معاملہ کو بجٹ تک ملتوی کرنے کا کہا ہے  فوری منی بجٹ کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا ہے مرحلہ وار ان مطالبات کو پورا کرنے کے حق میں ہیں ۔

انہوں نے بتایا کہ ہماری کوشش ہوگی کہ ہم معیشت کا ساتوں جائزہ جلد مکمل کر کے فنڈ سے1ارب ڈالر کی قرض کی نئی قسط لے لیں اور پھر بجٹ کی تیاری کیلئے ان سے مشاور کریں اور معیشت کا 8واں جائزہ مکمل کریں۔

انہوں نے بتایا کہ بجٹ کیلئے مختلف تجویز نجی شعبے سے سامنے آئی ہیں ان میں جائیداد کی مروثی تقسیم پر بھی ٹیکس لگانے، ویلتھ ٹیکس بحال کرنے، انوائرمنٹ ٹیکس لگانے اور ماحولیات کو خراب کرنے والوں پر جرمانے لگانے جیسی تجاویز شامل ہیں

 امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ کی قدر میں کمی کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ جب میاں شہباز شریف وزیر اعظم منتخب ہوئے تو روپیہ کی قدر میں 6 روپے سے 8 روپے کا اضافہ ہوا۔

وزیر خزانہ نے اپنی اور تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی کا موازنہ کیا اور کہا کہ ہمارے دور میں غیر ملکی قرض 75 ارب ڈالر تھا جو چار سال میں بڑھ کر 108ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے ملکی قرض 2400 ارب روپے سے بڑھ کر 43 ارب روپے تک جا پہنچا ہے ہمارے زمانے میں بجٹ خسارہ 1600 ارب روپے تھا جو اس سال 5600 ارب روپے تک چلا جائے گا کرنٹ اکاونٹ خسارہ 16 ارب ڈالر زیادہ سے زیادہ تھا جو اس سال 20 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائے گا۔

ڈاکٹر مفتاح اسماعیل اب امریکا روانہ ہوگئے ہیں جو عالمی بینک کی اسپرنگ میٹنگ میں شرکت کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف حکام سے بھی ملیں گے اور انہیں اپنی حکومت کی ترجیحات سے آگاہ کریں گے۔ قرض پروگرام جاری رکھنے اور شرائط نرم کرنے کی استدعا بھی کریں گے۔

متعلقہ تحاریر