پولیس7 روز بعد بھی دعا زہرہ کا کھوج لگانے میں ناکام،وکٹم بلیمنگ جاری

ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ سندھ کی ٹیم حرکت میں آگئی، ماہرین کی دعا گھر جاکر والد سے ملاقات، موبائل اور گیمنگ کمپنیوں سے بھی ہنگامی رابطہ، فنکار،کھلاڑی اور سماجی کارکن دعا کی جلد واپسی کیلیے دعاگو

کراچی کے علاقے ملیر الفلاح سے لاپتہ ہونے والی 14 سالہ دعا زہرہ کو 7 روز گزرنے کے باوجود بازیاب نہیں کرایا جاسکا ہے۔اس کیس میں بھی پولیس نے روایتی غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔

پہلے تین روز تک پولیس نے دعا کے اہلخانہ کی درخواست پر گمشدگی کا مقدمہ ہی درج نہیں کیا اور جب بچی کے والدین  نے سماجی کارکن ظفر عباس سے رابطہ کیا تو اس کے بعد پولیس حرکت میں تو ضرور آئی مگرجدید خطوط پر تحقیقات کے بجائے روایتی لیت و لعل سے کام لیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

دعا زہرہ  سے منسوب سی  سی ٹی وی فوٹیج غلط نکلی،ایس ایچ او معطل

میرے والد کے قاتلوں کو اعلیٰ عہدوں پر ترقی دی جارہی ہے، فاطمہ بھٹو

 دعا زہرہ کے والدین کے مطابق وہ دوپہر ساڑھے 12 بجے لاپتہ ہوئی ہے جبکہ ملیر  الفلاح تھانے  کے ایس ایچ او نے روایتی پھرتیاں دکھاتے ہوئے علاقے سے ملنے والی سی سی ٹی وی فوٹیج میں  سحری کے وقت دفترجانے والی لڑکی کو دعا زہرہ قرار دیدیا تھا اور الزام عائد کیا تھا کہ دعا زہرہ اپنی مرضی گاڑی میں بیٹھ کر گئی ہے تاہم دعا کے والدین شروع دن سے اس دعوے کی تردید کررہے تھے۔بعد ازاں تحقیقات میں یہ بات سامنے آگئی کہ سی وی ٹی وی فوٹیج میں نظر آنے والی لڑکی ثوبیہ ہے جو علی الصبح دفتر جانے کیلیے گاڑی میں سوار ہوئی تھی۔

پولیس اور تفتیشی اداروں نے  دعازہرہ کے اسکول نہ جانے سے متعلق بھی گمراہ کن معلومات میڈیا کے ذریعے پھیلائی ہیں کہ وہ تیسری جماعت کے بعد اسکول نہیں گئی جبکہ اس کے والد نے بتایا ہے  کہ کورنا کی وجہ سے پوری قوم کے بچے دو سال اسکول نہیں گئے تو دعا بھی نہیں جاسکی ۔ دو سال تک وہ پروموٹ ہوتی رہی اور اب ساتویں جماعت میں زیر تعلیم تھی۔

پولیس اور تحقیقات اداروں نے گزشتہ روز ایک اور افواہ پھیلائی کے دعا زہرہ کے گھر کی انٹرنیٹ نیٹ ڈیوائس سے کورٹ میرج اور پسند کی شادی سے متعلق سرچ ہسٹری ملی ہے تاہم ابھی تک اس حوالے سے کوئی ٹھوس بات سامنے نہیں آئی ۔پھر میڈیا کے ذریعے یہ افواہ بھی پھیلائی گئی کہ دعا زہرہ سانگھڑ سے مل گئی ہے اور اس نے وہاں کسی وڈیرے کے بیٹے سے خفیہ نکاح کرلیا ہے۔ تاہم بعد میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ سانگھڑ سے ملنی لڑکی دعا نہیں بلکہ کوئی اور خاتون تھی۔ نمائندہ نیوز 360 عبدالقادر منگریو نے گزشتہ روز ملیر الفلاح میں دعا کے گھر جاکر ان کے والدین سے گفتگو کی ہے۔

دعا زہرہ اور انکے والدین سے پورے ملک میں اظہار یکجہتی کا سلسلہ بھی جاری  ہے۔فنکار،کھلاڑی،سیاستدان اور سماجی شخصیات دعا کی جلد واپسی کیلیے نیک خواہشات کا اظہار کررہے ہیں۔

ماہرہ خان  نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ دعا زہرہ کے لیے دل سے دعا کرتی  ہوں کہ  وہ آج صحیح سلامت گھر پہنچ جائے ۔

اداکارہ سجل علی نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ دعا زہرہ کی گمشدگی کے بارے میں جان کر دکھ ہو ا، اس نوجوان لڑکی کی بحفاظت واپسی کیلیے دعا گو ہوں، حکام کو فوری ایکشن لینا چاہیے۔

اداکارہ مایہ علی نے لکھا کہ یہ دل دوز بات ہے،سوچ نہیں سکتی کہ اس کے والدین پر کیا بیت رہی ہوگی۔آئیے مل کردعا زہرہ  کے لیے دعا کریں کہ وہ بحفاظت اپنے گھر واپس آجائے۔ میں حکام سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ سخت ایکشن لیں اور اسے اس کے والدین کے پاس واپس لائیں۔

اداکار بلال اشرف نے بھی زہرہ کی گمشدگی کے حوالے سے ایک پوسٹر ٹوئٹ کیا۔

سینئر صحافی اور یوٹیوبر اسد علی طور نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ بیٹیاں صرف بیٹیاں ہوتی ہیں ان کی  کسی مسلک،رنگ نسل اور سیاست سے وابستگی نہیں ہوتی وہ صرف بیٹیاں ہوتی ہیں۔ میں بختاور بھٹوزرداری اور آصفہ بھٹو زرداری سے اپیل کرتا ہوں کہ  دعا زہرا کی گمشدگی کیس میں ذاتی دلچسپی  کا مظاہر کریں اور دعا کی فوری محفوظ واپسی یقینی بنائیں۔

اسد علی طور کے ٹوئٹ میں جواب میں بختاور بھٹو زرداری نے لکھا کہ ہر کسی کی طرح دعا زہرہ کے  کیس کی پیروی کر رہے ہیں ،پولیس چھاپے مار رہی ہے اور 100فیصد کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس کے خاندان پر کیا گزررہی ہے اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔ دعا ہے کہ دعا زہرہ جلد اور بحفاظت واپس آجائے۔

معروف سماجی کارکن اور وکیل جبران ناصر نے اس حوالے سے طویل ٹوئٹر تھریڈ میں لکھا کہ  گراؤنڈ فلور پر 3 کچرے کے تھیلوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے ایک لڑکی پہلی منزل پر اپنے اپارٹمنٹ سے نیچے اترتی ہے۔ وہ اپنے ہاتھوں میں 2 بیگ اٹھائے گراؤنڈ فلور کی طرف جاتی ہے جبکہ تیسرا اپارٹمنٹ میں رہ جاتا ہے لیکن وہ اس کے لیے کبھی واپس نہیں آتی، اسے اپارٹمنٹ کمپلیکس سے نکلتے ہوئے کوئی نہیں دیکھتا، کوئی اسے کمپلیکس کے اندر نہیں دیکھتا۔ سڑک کا احاطہ کرتے سی سی ٹی وی کیمرے کی ریکارڈنگ ایک اہم ثبوت ہے۔

جبران ناصر نے مزید لکھا کہ خاندان کے مطابق پولیس اور رینجرز تعاون کر رہے ہیں لیکن موثر تفتیش کا مطلب فوری طور پر بچے کی بحفاظت بازیابی اور اسے اس کے والدین کے پاس واپس کرنا ہے۔ ہر گزرتا دن ہماری قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحیت پر سوال اٹھا رہا ہے۔ یہ اغوا کا ایک خوفناک معاملہ ہے۔

انہوں نے مزید لکھاکہ براہ کرم نوٹ کریں کہ اس طرح کے نابالغوں کے معاملے میں پاکستان کے قوانین کے تحت یہ ضروری نہیں ہے کہ کسی بچے کو زبردستی اغوا کر لیا جائے۔ بچوں کو قابل بھروسہ افراد یا واقف کاروں  کے ذریعے بھی  بہکا یا جا سکتا ہے۔

قومی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں نے بھی دعا مرزا کے خاندان سے اظہا ریکجہتی کیا ہے۔اسپنر شاداب خان نے لکھا کہ دعا زہرا اور اہل خانہ کے لیے دعائیں، وہ اور تمام لاپتہ بچے بحفاظت اپنے والدین کے پاس واپس آجائیں۔ میں حکام سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ہمارے بچوں کاتحفظ یقینی بنائیں، وہ ہمارا مستقبل ہیں، اس سے زیادہ اہم کوئی چیز نہیں ہے۔

قومی ٹیم کے سابق وکٹ کیپر کامران اکمل  بھی دعا زہرا کی جلد واپسی کیلیے دعاؤں کی درخواست کی ہے۔

پیپلزیوتھ آرگنائزیشن کے سندھ کے وفد نے بھی دعا زہرہ کے گھر جاکر ان کے والد سے ملاقات کی اور انہیں اپنے مکمل تعاون اور حمایت کا یقین دلایا۔

دوسری جانب ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ سندھ  بھی دعا زہرہ کا کھوج لگانے کیلیے حرکت میں آگیا ہے۔

ایف آئی اے سائبر کرائم سندھ کے فارنزک ماہر،ٹینیکل اینالسٹ ،خاتون تفتیش کار اور خاتون ماہرنفسیات پر مشتمل 4 رکنی وفد نے  گزشتہ روز دعا زہرا کے گھرجاکر ان کے والد سے ملاقات کی ۔ایف آئی اے سائبر کرائم نے اس حوالے سے گوگل، سام سنگ اور آن لائن گیمنگ پلیٹ فارم سے بھی ہنگامی رابطہ کیا ہے۔

متعلقہ تحاریر