پنجاب میں آئینی بحران شدت اختیار کرگیا، وزیراعلیٰ کون حمزہ شہباز یا عثمان بزدار؟
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کے نئے اقدام سے صوبے میں نئے آئینی بحران نے جنم لے لیا ہے، تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ انتظامیہ کس کے حکم کے مطابق چل رہی ہے۔
پاکستان کے سب سےبڑے صوبے پنجاب میں سیاسی بحران شدت اختیار کرگیا ، ایک جانب لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر نومنتخب وزیراعلیٰ حمزہ شہباز کی حلف برداری کی تیاری جاری ہیں جبکہ دوسری جانب گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے عثمان بزدار کے استعفے کو خلاف قرار دیتے ہوئے مسترد کرتے ہوئے انہیں پنجاب اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ہدایت کی ہے۔ دوسری جانب اسپیکر قومی اسمبلی کے ذریعے وزیراعلیٰ پنجاب کی تقریب حلف برداری کے خلاف پی ٹی آئی 17 ارکان اسمبلی نے انٹرا کورٹ اپیل دائر کردی ہے۔
گذشتہ روز ایک مرتبہ پھر لاہور ہائیکورٹ نے اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کو نومنتخب وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز سے حلف لینے کا حکم دیا تھا، حلف برداری کی تقریب آج صبح ساڑھے گیارہ بجے پنجاب اسمبلی میں ہونا ہے تاہم گورنر عمر سرفرار چیمہ کے نئے اقدام کے بعد عثمان بزدار نے پنجاب اسمبلی کا اجلاس 9 بجے طلب کرلیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے عثمان بزدار کو استعفیٰ آئینی اعتراض لگا کر مسترد کردیا ہے۔ استعفیٰ مسترد کرنے کے حوالے سے اسپیکر پنجاب اسمبلی کو خط بھی لکھ دیا ہے۔ خط میں لکھا گیا ہے کہ عثمان بزدار کا استعفیٰ آئین کے آرٹیکل 130 کے سب سیکشن 8 کے تقاضے پورے نہیں کرتا ہے۔
خط میں لکھا گیا ہے کہ عثمان بزدار نے استعفیٰ وزیراعظم کو دیا تھا جو آئینی طور غلط ہے ۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی کو گورنر کا خط موصول ہوگیا ہے جس میں عثمان بزدار کے استعفے سے متعلق تشریح کی گئی ہے۔
خط میں لکھا گیا ہے کہ عثمان بزدار نے ٹائپ شدہ استعفے پر دستخط کیے جبکہ انہیں استعفیٰ ہاتھ سے لکھنا تھا۔
گورنر پنجاب نے اسپیکر کو عثمان بزدار کو قائد ایوان کی حیثیت سے آئینی اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے ۔
اس خط کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے دعویٰ کیا ہے کہ عثمان بزادر اپنے منصب پر دوبارہ بحال ہو گئے ہیں، اور ان کی پنجاب کابینہ بھی بحال ہو گئی ہے ۔ پی ٹی آئی نے آج ہی عثمان بزدار کو بطور وزیراعلیٰ پنجاب کابینہ کا اجلاس بلانے کی تجویز دی ہے۔ کابینہ کا اجلاس پنجاب اسمبلی میں 9 بجے طلب کرلیا گیا ہے۔
اجلاس کے بعد عثمان بزدار کی کابینہ آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کرے گی۔
دوسری جانب اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ انہیں گورنر پنجاب کا مراسلہ موصول ہو گیا ہے۔
گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کا یہ اقدام نومنتخب وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کی حلف برداری سے کچھ دیر پہلا ہی سامنے آیا ہے۔
واضح رہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے کل حمزہ شہباز کی حلف برداری کا حکم دیا تھا اور کل ہی اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی نے دنیا نیوز کے پروگرام "آج کامران خان کے ساتھ” میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ حلف کیسے ہوسکتا ہے جبکہ میں کہہ رہا ہوں وزیراعلیٰ کا انتخاب ہوا ہی نہیں ہوا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایک جانب عثمان بزدار کو بطور وزیراعلیٰ پنجاب بحال کردیا گیا ہے اور دوسری جانب لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر حمزہ شہباز وزیراعلیٰ پنجاب کا حلف آج اٹھا رہے ہیں ، اس کا مطلب ہے کہ صوبے میں دو وزیراعلیٰ ہوں گے۔ ایسے لگتا ہے کہ ذاتیات کی لڑائی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ پنجاب میں نیا آئینی بحران پیدا ہو گیا ہے ۔ گورنر پنجاب کے نئے اقدام کے بعد عثمان بزدار اپنے گذشتہ عہدے پر فائز ہو گئے ہیں یعنی یکم اپریل سے پہلے والی پوزیشن پر آگئے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ گورنر پنجاب نے ٹیکنیکل بنیادوں میں پنجاب کنفیوژن پیدا کردیا ہے ۔ قانونی طور پر حمزہ شہباز شریف کی حلف برداری اس وقت تک نہیں رک سکتی جب تک لاہور ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ سے اسٹے آرڈر نہ مل جائے۔ گورنر پنجاب کے اقدام سے ملک میں ایک نیا آئینی بحران پیدا ہو گیا ہے ، تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ انتظامیہ کس کے حکم کے مطابق چل رہی ہے ۔
تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ گورنر پنجاب کو آئینی پروٹیکشن حاصل ہے کہ انکے خلاف عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر مقدمہ قائم نہیں ہوسکتا ہے ، اور شائد وہ پروٹیکشن شیلڈ کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ گورنر صاحب کو اس وقت عثمان بزدار کا استعفیٰ یاد آیا جب انہیں حمزہ شہباز کی بطور وزیراعلیٰ پنجاب کے منتخب ہونے کا رزلٹ بھی مل گیا تھا۔ گفتگو کو اختتامی الفاظ دیتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کا حکم اسٹینڈ کرتا ہے۔