مشرق وسطیٰ میں احترام رمضان کی پامالی بڑھنے لگی،اکانومسٹ

تہران سے تیونس تک اکثر شہروں میں کیفے کھلے رہتے ہیں،مصر جہاں کبھی روزہ خوروں کو جیلوں میں ڈال دیا جاتا تھا،اب وہاں ایک ریسٹورنٹ کو روزے کے دوران دروازے نہ کھولنے پر جرمانہ کیا گیا،رپورٹ

برطانوی جریدے اکانومسٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں احترام رمضان کی پامالی تیزی سے بڑھ رہی ہے، اردن کے دارالحکومت عمان کے شراب خانوں میں غروب آفتاب کے وقت وہسکی  کے دور چل رہے ہیں۔ ایران کے دارالحکومت تہران میں رش کے اوقات میں سگریٹیں پھونکی جارہی ہیں۔

مراکش کے دارالحکومت ماراکیچ  کے فحش  مساج پارلر کی رونقیں بحال ہیں اور یہ سب رمضان کے اس مقدس مہینے میں ہورہا ہےجس میں مسلمان صبح سے شام تک کھانے، پینے اور جنسی تعلقات سے پرہیزکرنے کے پابند ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ترکی میں رمضان المبارک مذہبی اور روایتی جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے


بین المذاہب ہم آہنگی کی بہترین مثال، مٹھی کے سشیل کمار ملانی رمضان کے روزے رکھنے لگے

برطانوی جریدے اکانومسٹ کی رپورٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات کی ریاست دبئی کے کچھ باشندے اس ماہ مبارک کا نام بگاڑ کر رمضان کے بجائے حرامضان کہتے ہیں  مطلب جس میں سب کچھ حرام ہے۔

مشرق وسطیٰ کی بیشتر ریاستوں میں اب بھی رمضان کے روزے کی عوامی خلاف ورزی قانوناً جرم  ہے ۔ لیکن کئی دہائیوں پہلے لگائے گئے جرمانے اب پارکنگ فیس کی خلاف ورزی  کے جرمانے سے بھی کم ہیں۔

اردن میں روزے کی خلاف ورزی پر زیادہ سے زیادہ 25 دینار (تقریباً 35 ڈالر) جرمانہ ہے جبکہ  عمان  میں یہ جرمانہ ایک ریال (3ڈالر) ہے، اکثر اوقات تو  حکام ایسی خلاف ورزی پر اپنی  آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔

مزاروں کی وجہ سے شہرت رکھنے والے عراقی شہر نجف میں ایک  وکیل کا کہنا ہے کہ و ہ سوشل میڈیا پر چلنے والی چیخ و پکار سے بہت خوفزدہ ہیں، ججز اکثر رمضان میں سگریٹ کے وقفے کے لیے مقدمات میں خلل ڈالتے ہیں۔

 تہران سے تیونس تک  اکثر شہروں میں کیفے کھلے رہتے ہیں، کچھ مالکان احتیاطً  دھاتی شٹر پر ٹیپ  لگادیتے ہیں۔ مصر جہاں کبھی روزے کی خلاف ورزی پر لوگوں کو جیلوں میں ڈال دیا جاتا تھا۔اب وہاں یہ حال ہے کہ ایک ریسٹورنٹ کو اپنے دروازے کھولنے سے انکار پر  جرمانہ کیا گیا جبکہ مصری پولیس نے حال ہی میں ایک قبطی عیسائی کی خدمات کی فراہمی سے انکا ر کرنے والے فاسٹ فوڈ جوائنٹ کو بند کر دیا۔

حالیہ برسوں میں اردن نے کھانے پینے کی اشیا مہنگے داموں فروخت کرنے کے لیے رمضان لائسنس متعارف کرائے ہیں جبکہ اب بھی ایسے لوگوں کو جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے جو  کھلے عام روزہ خوری کرتے ہیں ں۔ پہلے کیفیز نے اپنے داخلی راستوں اور کھڑکیوں پر پردے لگانے میں احتیاط کی۔ اب وہ کھلے رہ گئے ہیں۔ اب عمان کارخ کرنے والا کوئی غیر ملکی سیاح بمشکل ہی   اندازہ لگاسکتا ہے کہ یہاں رمضان المبارک کا مہینہ چل رہا ہے۔

عرب دنیا میں آنے والی اس نئی تبدیلی کو بعض  لوگ حکومتوں کی جانب سے داعش اور اس جیسی دیگر جہادی تنظیموں  کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات کا نتیجہ قرار دیتے ہیں ۔تو کچھ کا ماننا ہے کہ  یہ  لوگوں کو مذہب کے ذریعے قابو کرنے کی ریاستی کوشش کیخلاف بغاوت کا نتیجہ ہے۔

ایک وجہ یہ بھی قرار دی جارہی ہے کہ عرب ریاستیں تیل پر انحصار کم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں  ایسے میں  انہیں  غیر مسلم سیاحوں  کی توجہ حاصل کرنے کیلیے مسابقتی صورتحال درپیش  ہے۔ اس کے علاوہ  فوڈ ڈیلیوری ایپس کی بھرمار عوام کیلیے حکومتی جانچ کے بغیر آرڈر کرنا آسان بناتی ہے۔

متعلقہ تحاریر