نئے انتخابات ، مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کی ترجیحات الگ الگ

تجزیہ کا کہنا ہے کہ زرداری صاحب کے ٹریپ میں مسلم لیگ ن آگئی ہے اس لیے بہتر ہے کہ ن لیگ جتنی جلدی ممکن ہوسکے انتخابات کی جانب چلے جائے۔

حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) نے ملک میں عام انتخابات کے فوری انعقاد کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ نومبر کے آس پاس انتخابات ہوسکتے ہیں ، جب کہ ان کی بڑی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی قیادت کا موقف یہ ہے کہ جب تک انتخابی اصلاحات اور نیب ریفارمز نہیں ہوجاتی جلد انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہے۔ دوسری جانب لندن میں میاں محمد نواز شریف کی زیرصدارت مسلم لیگ ن کا اجلاس نشستاً گفتاً اور برخاستاً تک ہی محدود رہا، اور کوئی قابل ذکر فیصلہ نہ ہوسکا۔

خواجہ آصف کا بی بی سی کو انٹرویو

گذشتہ روز لندن میں بی بی سی سے گفتگو کرتےہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ حکومت نومبر سے پہلے یا آس پاس عام انتخابات کی جانب جاسکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نومبر سے پہلے قائم مقام حکومت آجائے اور نومبر کے آس پاس انتخابات ہوجائیں۔

خواجہ آصف نے اس بات کا بھی امکان ظاہر کیا ہے کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی سے قبل بھی انتخابات ہوسکتے ہیں۔

آصف علی زرداری کی پریس کانفرنس

دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے کوچیئرمین آصف علی زرداری نے کل ہی روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہہ دیا کہ جب انتخابی اصلاحات اور نیب ریفارمز نہیں ہوجاتی انتخابات نہیں ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ ملک میں فری اینڈ فیئر انتخابات کے لیے انتخابی اصلاحات ضروری ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کا لندن اجلاس

دوسری جانب اتفاق دیکھیں کہ لندن میں مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز کی زیرصدارت ہونے والا اجلاس صرف نشستاً گفتاً اور برخاستاً تک ہی محدود رہا۔ اجلاس کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے وفاقی وزیراطلاعات مریم اورنگزیب نے اہم بیان جاری کیا ہے۔

مریم اورنگزیب کے مطابق میاں محمد نواز شریف کی زیرصدارت پارٹی قیادت کا اہم مشاورتی اجلاس ہوا ، جس میں حکومتی ٹیم نے موجودہ معاشی حقائق سے قائد محمد نوازشریف کو آگاہ کیا۔

یہ بھی پڑھیے

روس سے خام تیل کی خریداری سے متعلق بات چیت آخری مراحل میں تھی، حماد اظہر

غیرملکی سازش نے نہیں تمہارے منتخب اراکین نے تمہیں نکالا، مریم نواز

مریم اورنگزیب  کا کہنا تھا اجلاس میں توانائی کے شعبے میں سابق حکومت کے پیدا کردہ سنگین بحران، لوڈشیڈنگ، تیل اور ایل این جی نہ منگوانے کی تفصیلات بیان کی گئیں ، حکومتی ٹیم نے بتایا کہ عوام کو مہنگائی کے اضافی مزید بوجھ سے بچانے کے لئے پٹرول کی قیمت میں اضافہ نہیں کیاگیا۔

وفاقی وزیر اطلاعات کے مطابق اجلاس میں موجودہ حکومت کو ورثے میں ملنے والے سنگین معاشی، آئینی اور انتظامی بحرانوں پر قائد محمد نواز شریف کو تفصیلی بریفنگ دی گئی ، اجلاس نے مہنگائی، لوڈشیڈنگ سے عوام کو نجات دلانے اور ریلیف کی فراہمی سے متعلق مختلف سفارشات پر غور کیا ، اجلاس نے حکومت آنے کے بعد سے اب تک کے اقدامات کا تفصیلی جائزہ لیا ، حکومتی ٹیم نے معاشی حقائق کی روشنی میں مستقبل کے اقدامات کے بارے میں اپنی آراء پیش کیں۔

مریم اورنگزیب کے مطابق اجلاس میں ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال پر بھی تفصیلی غوروخوض کیا گیا ، اجلاس میں 3 اپریل سے اب تک آئین شکنی کے اقدامات کا جائزہ لیا گیا ، اجلاس میں اتفاق رائے پایاگیا کہ آئین شکن عناصر کو آئین اور قانون کے مطابق نمٹا جائے گا، آئین شکن عناصر کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کے لئے مختلف تجاویز پر مشاورت ہوئی۔

مریم اورنگزیب کا اپنے بیان میں مزید کہنا تھا کہ قائد محمد نواز شریف کی زیرصدارت حتمی فیصلوں کے لئے کل پھر اجلاس ہوگا ، جس میں ملک اور عوام کو بحران سے نکالنے کے لئے حکمت عملی کی منظوری دی جائے گی ، ملک کو معاشی، آئینی بحرانوں سے نکالنے کے لئے کل حتمی فیصلوں کا اعلان ہوگا ، تمام فیصلوں کا اعلان اتحادی جماعتوں کی تائید و حمایت سے کیا جائے گا۔

موجودہ سیاسی صورتحال اور تجزیہ کار کا تبصرہ 

حکومت اور آصف علی زرداری کے بیانیے میں واضح فرق پر تبصرہ کرتے ہوئے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے آصف علی زرداری صاحب نہیں چاہ رہےکہ جلدی الیکشن ہوں جبکہ مسلم لیگ ن کی قیادت کا بیانیہ یہ ہے کہ انتخابات جلد ہونے چاہئیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے مسلم لیگ ن کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ آصف علی زرداری صاحب کا بیانیہ ہے کہ موجودہ صورتحال سے زیادہ سے زیادہ مفادات اٹھا لیے جائیں ، اس کے لیے انہوں نے اچھی اچھی منسٹریز بھی خود لے لی ہیں۔ فارن منسٹری اپنے بیٹے کو دلوا دی ہے جو امریکا ، برطانیہ ، جرمنی اور دیگر ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کررہے ہیں۔

دوسری انہوں نےکلائمیٹ چینج کی منسٹری ہے ، جہاں دنیا جہاں کا فوکس ہے ، اس کو شیری رحمان صاحبہ دیکھ رہی ہیں۔ جہاں فنڈنگ بھی بہت زیادہ ہیوی آتی ہے ۔ بے نظیر انکم اسپورٹ پروگرام کی منسٹری بھی پیپلز پارٹی کےپاس ہے ، اپنے ووٹرز پکنے کرنے کے لیے وہ وہاں سے فنڈز لوگوں کو دیں گے اور مستقبل میں سیاسی فائدہ اٹھائیں گے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے جتنی بھی مشکل منسٹریز ہیں وہ ن لیگ کے حصے میں آ گئی ہیں، واٹر اینڈ پاور کی منسٹری ن لیگ کے پاس ، جہاں پرفارم کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ، فنانس کی منسٹری ن لیگ ، پیٹرولیم کی منسٹری ن لیگ ، اور پرائم منسٹر ن لیگ ، جو سارے مشکل کام ہیں وہ  ن لیگ کے پاس ہیں ۔ یعنی سارے مشکل کام سارے ن لیگ کے کھاتے میں اور سارے آسان کام ہیں وہ پیپلز پارٹی کے کھاتے میں  آ گئے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ جب انتخابات میں دونوں پارٹیاں اپنی اپنی کارکردگی عوام کے سامنے رکھیں گی تو پیپلز پارٹی کے پاس بہت سارا مواد ہو گا اپنی کارکردگی بتانے کا ، جبکہ ن لیگ کی قیادت نے اگر پرفارم نہ کیا تو عوام کے سامنے کیا بیانیہ رکھی گی کہ پچھلی حکومت نے مشکلات کے انبار لگا رکھے تھے ، تو عوام یہ سوال اٹھانے میں حق بجانب ہو گی کہ پھر آپ نے حکومت سے انہیں ہٹایا کیوں تھا۔

تجزیہ کا کہنا ہے کہ زرداری صاحب کے ٹریپ میں مسلم لیگ ن آگئی ہے اس لیے بہتر ہے کہ ن لیگ جتنی جلدی ممکن ہوسکے انتخابات کی جانب چلے جائے ، کیونکہ جس شخص نے 2008 سے 2013 تک اپنی پارٹی کو ایک صوبے کی پارٹی تک محدود کردیا وہ ان ڈائریکٹلی ن لیگ کے ساتھ کیا کرسکتا ہے؟

متعلقہ تحاریر