ناروے اور پاکستان کے درمیان تجارتی اعداد زیادہ متاثر کن نہیں، سفیر
صدر کے سی سی آئی محمد ادریس کا کہنا ہے تجارت کے ممکنہ شعبوں سمیت پاکستان ناروے کو ٹیکسٹائل برآمدات میں حصہ بڑھاسکتا ہے۔
ناروے کے سفیر پیر البرٹ الساس نے کہا ہے کہ ناروے اور پاکستان کے درمیان بہترین تعلقات قائم ہیں اور دونوں ممالک متعدد شعبوں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ تجارت کا حجم بڑھنا بھی مثبت رجحان ہے تاہم تجارتی اعداد بہت سی وجوہات کے باعث زیادہ متاثر کن نہیں۔ سفارتخانے میں ہماری ٹیم اور میری ترجیحات میں یہ انتہائی اہم ہے کہ ہم اس بات کا جائزہ لیں کہ ہم دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات اور اقتصادی تعاون کو مزید خوشگوار اور مضبوط بنانے میں کس طرح اپنا مؤثر کردار ادا سکتے ہیں۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے دورے کے موقع پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر صدر کے سی سی آئی محمد ادریس، سینئر نائب صدر عبدالرحمان نقی، نائب صدر قاضی زاہد حسین، چیئرمین ڈپلومیٹک مشنز اینڈ ایمبیسیز لائژن سب کمیٹی ضیاء العارفین، سابق صدر کے سی سی آئی مجید عزیز، سیکنڈ سیکریٹری پولیٹیکل ناروے ایمبیسی سلجے میری، پروگرام ایڈوائزر ڈیولپمنٹ نارویجن ایمبیسی ایم بلال مجید اور کے سی سی آئی مینجنگ کمیٹی کے اراکین بھی موجود تھے۔
یہ بھی پڑھیے
حکومت لندن میں ، روپے اور اسٹاک مارکیٹ کا پاکستان میں بھٹہ بیٹھ گیا
ناروے کے سفیر نے اپنے پہلے دورہ کراچی کے دوران کے سی سی آئی کے دورے کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو بڑھانے کے امکانات پر تبادلہ خیال کرنا اور اس بارے میں باہمی مشاورت کرنا ہے کہ کس طرح ناروے کا سفارت خانہ اور کے سی سی آئی دو طرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے مل کر کام کر سکتے ہیں۔ ناروے کی خوش قسمتی ہے کہ 39,700 کی ایک قابل ذکر تعداد میں پاکستانی یہاں مقیم ہیں چونکہ اس ملک کی مجموعی آبادی صرف 5.3 ملین ہے اور پاکستانی تارکین وطن نارویجن معاشرے اور معیشت میں اپنا اچھا خاصا حصہ ڈال رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ناروے قدرتی وسائل باالخصوص تیل اور گیس کے وسائل سے مالا مال ملک ہے جبکہ مچھلی اور سالمن ناروے کی برآمدات کی اہم اشیاء میں سے ہیں۔ صدر کے سی سی آئی نے بجا طور پر بلیو اکانومی میں بے پناہ مواقع کی نشاندہی کی اور جیسا کہ ناروے ساحلی ملک ہے کیونکہ ہمارا ملک ایک وسیع ساحلی پٹی پر محیط ہے اور یہ وہ شعبے ہیں جہاں باہمی دلچسپی اور مواقعوں سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جس کی نشاندہی اور تلاش کی جا سکتی ہے مگر ناروے کے لوگ ہمیشہ پاکستان کو کاروبار کرنے کے لیے سب سے آسان جگہ نہیں سمجھتے۔انہوں نے کہا کہ ناروے کی ایک کمپنی اسکیٹک نے نظام انرجی کے ساتھ مل کر سکھر میں 150 میگاواٹ کا سولر پاور پلانٹ لگانے کا منصوبہ شروع کیا ہے اور اس منصوبے کے لیے مالیاتی بندش فروری 2021 میں حاصل کی گئی۔سندھ میں اسکیٹک کی طرف سے بجلی کی پیداوار کا آغاز ناروے کی دیگر کمپنیوں کے لیے دلچسپی کا باعث ہو گا۔
قبل ازیں کے سی سی آئی کے صدر محمد ادریس نے ناروے کے سفیر کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ناروے کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم ہیں جہاں پاکستانی تارکین وطن سب سے بڑی کمیونٹی میں سے ایک ہیں اور دونوں ممالک نے دوہرے ٹیکس کے معاہدے پر دستخط بھی کیے ہیں جبکہ ناروے پاکستان کو ترقیاتی امداد بھی فراہم کرتا ہے۔ اگرچہ دونوں ملکوں کی معیشتیں ایک دوسرے کے ساتھ متعدد اشیاء کی تجارت کرتی ہیں لیکن تجارتی تعلقات کو مزید خوشگوار بنانے کی ضرورت ہے۔2021 کے دوران پاکستان نے ناروے کو 125.6 ملین ڈالر کی اشیاء برآمد کیں جبکہ ناروے سے 65 ملین ڈالر کی درآمدات ریکارڈ کی گئیں۔ ناروے کو پاکستان کی سرفہرست برآمدات میں کپڑوں کے ملبوسات اور چمڑے، کھیلوں کا سامان، خوردنی پھل اور گری دار میوے، کاٹن، جوتے، قالین، مشروبات، طبی یا جراحی کا سامان وغیرہ شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں اضافے کے بہت زیادہ امکانات موجود ہیں کیونکہ ناروے دنیا بھر سے ٹیکسٹائل سے متعلق تقریباً 3 سے 4 ارب ڈالر کی اشیاء درآمد کرتا ہے۔پاکستان کے پاس ناروے کی مارکیٹ میں ٹیکسٹائل کی اپنی برآمدات کا حصہ بڑھانے کا ایک اچھا موقع ہے کیونکہ اس وقت پاکستان ناروے کو تقریباً 96 ملین ڈالر مالیت کی ٹیکسٹائل اشیاء برآمد کرتا ہے۔
محمد ادریس نے بتایا کہ پاکستان اور ناروے متعدد مصنوعات کی تجارت کو بڑھانے کے امکانات پر غور کر سکتے ہیں جن میں علاج کے مقاصد کے لیے ادویات، آٹا، پورٹ لینڈ سیمنٹ، تازہ یا ٹھنڈا پیاز، آلو، منجمد کیکڑے اور جھینگے، تازہ یا خشک کیلے، سبزیاں، چربی اور تیل، آئرن کی فلیٹ رولڈ مصنوعات یا نان الائے اسٹیل وغیرہ شامل ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں قابل تجدید توانائی میں مشترکہ منصوبے شروع کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا جبکہ دونوں ممالک بلیو اکانومی کے دیگر شعبوں میں بھی تعاون کر سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ساحلی شہر کراچی لامحدود مواقع فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جس میں بندرگاہوں اور سمندری نقل و حمل، ماہی گیری، ہائیڈرو کاربن نکالنے کا عمل، سی بیڈمنرلز، ویلیو ایڈیڈ لاجسٹکس، شپ بلڈنگ، سب میرین کیبلز، آف شور انسٹالیشنز، فش پروسیسنگ اور ساحلی ماحولیاتی سیاحت شامل ہیں۔دونوں ممالک کے کاروباری ادارے اس سلسلے میں بات چیت کر سکتے ہیں تاکہ پاکستان کی تقریباً 1000 کلومیٹر کی ساحلی پٹی سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ دنوں ممالک کی تاجر برادریاں پاکستان کے جہاز سازی کے شعبے میں مشترکہ منصوبوں کے آغاز کرنے کے امکانات پر بھی غورکر سکتی ہیں۔