برطانیہ کی جولین اسانج کو امریکا کے حوالے کرنے کی منظوری
وکی لیکس کے پبلشر جولین اسانج کو امریکا میں 175 سال کی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا
برطانیہ نے وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کو امریکا کے حوالے کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ وزارتِ داخلہ نے کہا ہے کہ جولین اسانج کے پاس اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کے لیے 14 دن ہیں۔
برطانوی وزیرِداخلہ پریتی پٹیل نے وکی لیکس کے پبلشر جولین اسانج کی امریکہ حوالگی کی منظوری دے دی۔ برطانوی ہوم سکریٹری کے مطابق جولین کے پاس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کے لیے 14 دن ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
پرنس ہیری اور میگن مارکل اپنی بیٹی للی پہلی تصویر منظر عام پر لے آئے
وکی لیکس کی آفشیل ٹوئٹر ہینڈل پر ایک ٹوئٹ میں کہا گیا ہے کہ برطانیہ کا جولین کو امریکا کے حوالے کرنے کا فیصلہ آزادی صحافت اور برطانوی جمہوریت کے لیے ایک سیاہ دن ہے ۔
BREAKING: UK Home Secretary approves extradition of WikiLeaks publisher Julian Assange to the US where he would face a 175 year sentence – A dark day for Press freedom and for British democracy
The decision will be appealedhttps://t.co/m1bX8STSr8 pic.twitter.com/5nWlxnWqO7— WikiLeaks (@wikileaks) June 17, 2022
وکی لیکس کے اکاؤنٹ سے جاری پیغام میں کہا گیا ہےکہ جولین اسانج کو امریکہ 175 سال کی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ ہم اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل برطانیہ کی اپیلیٹ کورٹ نے ماتحت عدالت کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج کو امریکا بھیجنے کی اجازت دی ۔
عدالت نے فیصلہ سنایا کہ امریکا کی یقین دہانی اس بات کے لیے کافی ہے کہ اسانج کے ساتھ انسانی بنیاد پر برتاؤ کیا جائے۔عدالت نے ماتحت عدالت کے جج کو حکم دیا کہ وہ حوالگی کی درخواست سیکریٹری داخلہ کو بھیجےوہ حتمی فیصلہ کریں گے۔
واضح رہے کہ رواں برس کے اوائل میں عدالت نے فیصلے میں جولیان اسانج کو امریکا کے حوالے کرنے کی درخواست مسترد کردی تھی۔ جن پر امریکا نے ایک دہائی قبل خفیہ فوجی دستاویزات شائع کرنے پر جاسوسی کا الزام عائد کیا تھا۔
یاد رہے کہ مئی 2019 میں امریکی محکمہ انصاف نے اسانج کے خلاف جاسوسی ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے پر 17 الزامات عائد کیے تھے۔ امریکہ نے ان پر الزام لگایا کہ وکی لیکس کے ذریعہ حاصل کردہ مواد نے کئی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا ہے۔