پرافٹ پی کے نے بغیر دستاویزی ثبوت سنو ٹی وی کو بلڈرمافیا سے جوڑ دیا

سنو ٹی وی اسی گروپ کی ملکیت ہے جوچکری میں راولپنڈی ڈیولپمنٹ اتھارٹی سے سے غیرمنظور شدہ بلیوورلڈ سٹی  نامی ہاؤسنگ سوسائٹی چلارہا ہے, کاروباری میگزین کا پیمرا حکام کے حوالے سے دعویٰ

پاکستان کے سب سے بڑے تجارتی میگزین  ہونے کے دعوے دار پرافٹ پی کے نےپیمرا کیلیے پروپیگنڈے کا بیڑا اٹھالیا۔

میگزین نے نئے نجی ٹی وی چینل کی انتظامیہ کو ددستاویزی ثبوت کے بغیر قبضہ اور بلڈر مافیاسے جوڑ دیا۔

یہ بھی پڑھیے

غیرملکی شپنگ لائنز کا پاکستان کے لیے اپنی خدمات بند کرنے پر غور

اسٹاک مارکیٹ میں اربوں روپے کا نقصان، ڈالر بھی ڈار کے قابو سے باہر ہوگیا

 

میگزین نے پیمرکے حکام کا حوالہ دیتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ نیا لانچ ہونے والا سنو ٹی وی اسی گروپ کی ملکیت ہے جوچکری میں راولپنڈی ڈیولپمنٹ اتھارٹی سے سے غیرمنظور شدہ بلیوورلڈ سٹی  نامی ہاؤسنگ سوسائٹی چلارہا ہے۔

میگزین کے مطابق بلیو ورلڈ سٹی گزشتہ چند سالوں سے تنازعات کی زد میں ہے۔ آر ڈی اے کی جانب سے اپنے ابتدائی چند سالوں میں غیر قانونی قرار دیے جانے سے لے کر ترک اداکار اورمشہور ڈرامہ سیریل  ارطغرل  کے ہیرو   انجین التان کو پاکستان بلاکر معاوضے کی ادائیگی نہ کرنے تک ، بلیو ورلڈ سٹی میڈیا کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔

میگزین کے مطابق  نیوز میڈیا منافع بخش کاروبار نہیں ہے لیکن  بااثر  ضرورہے، نیوز چینل   ایک طاقتور پلیٹ فارم فراہم کرتاہے جسے بیانیہ سازی کیلیے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ اگر آپ کا نام میڈیا میں آتا ہے، تو آپ جوابی بیانیہ  پیش  کرنے کے لیے اپنے پلیٹ فارم کو آسانی سے متحرک کر سکتے ہیں۔

میگزین کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ بلیو ورلڈیہی  کرنے کی کوشش کر رہاہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بہت سے بااثر سیاست دانوں، رئیل اسٹیٹ ڈویلپرز اور دیگر کاروباری شخصیات نے   بالکل اسی طرح سے میڈیا ہاؤسز قائم کیے ہیں۔

ناقدین نے پرافٹ پی کے کی اس خبر کو پروپیگنڈا قرار دیا ہے۔ناقدین کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ سنو ٹی وی  اور بلیو ورلڈ سٹی کے مالکان ایک ہی ہوں لیکن  یہ بات اس وقت تک ثابت نہیں کی جاسکتی جب تک اس کا کوئی دستاویزی ثبوت موجود نہ ہو۔

پاکستان کے سب سے بڑے کاروباری میگزین ہونے کے دعویدار پرافٹ پی کے نے پیمرا ذرائع کے حوالے سے خبر شائع کرکے خود کو پیمرا کا پروپیگنڈا ٹول ثابت کیا ہے۔

ناقدین کا کہنا  ہے کہ کسی کاروباری میگزین کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ  حکومتی ادارے کے بیانئے کو تسلیم کرکے کسی دوسرے صحافتی ادارے کو نشانہ بنائے۔

متعلقہ تحاریر