86 سالہ بدقسمت باپ کو بیٹے کے زیرحراست قتل کے 32سال بعد معاوضہ مل گیا
درخواست گزار سرور کے 24سالہ بیٹے محمد شکیل کو اپریل 1990میں سی آئی حکام نے جوڑیا بازار سے حراست میں لیکر سی آئی اے سینٹر صدر تشدد کانشانہ بناکر قتل کردیا تھا۔ ملزمان کی فوجداری مقدمے میں بریت کے بعد مقتول کے باپ نے 1991 میں ہرجانے کی ادائیگی کا دیوانی مقدمہ دائر کیا تھا جو 26سال زیرالتوا رہا۔
کراچی کے 86 سالہ بدقسمت باپ کو 24سالہ نوجوان بیٹے کے پولیس حراست میں قتل کے 32 سال بعد سندھ ہائیکورٹ میں ہرجانے کی ادائیگی کا مقدمہ جیتنے کے بعد معاوضہ مل گیا۔
سندھ ہائیکورٹ کے عملے نے 86 سالہ سرور کو عدالت طلب کرکے 2 کروڑ 80 ہزار روپے کا چیک حوالے کیا۔
یہ بھی پڑھیے
سیلاب متاثرہ بچی سے اجتماعی زیادتی، ملزمان گرفتار، سندھ ہائی کورٹ نے بھی نوٹس لے لیا
راولپنڈی پولیس نے 4 سالہ بچے پر اینٹ سے میاں بیوی کا سر پھاڑنے کا مقدمہ بنادیا
1990 سے انصاف کے حصول کے لیے عدالتوں کی ٹھوکریں کھانے والے درخواست گزار سرور نے کہا کہ انہیں 30 سال سےزائد عرصہ گزرنے کے بعد کچھ سکون ملا ہے کیونکہ قانون بالآخر اپنی رٹ قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے تاہم ان کا ماننا ہے کہ اس ملک میں اپنے پیاروں کو کھودینے والوں کو کبھی انصاف نہیں مل سکتا ۔
کئی سال قبل فالج کے باعث مفلوج ہونےوالے عمررسیدہ درخواست گزار سرور سندھ ہائیکورٹ کے ناظر کے دفتر کے باہر کھڑی وین میں بیٹھے رہےبعدازاں عدالتی عملے نے رسمی کارروائی مکمل کرنے کے بعد انہیں 2 کروڑ 80 ہزار روپے سے زائد کا چیک دیا۔
درخواست گزار سرور کے وکیل کا خیال ہے کہ یہ ملک کی تاریخ کا پہل کیس ہے جس میں کسی ہائیکورٹ نے دوران حراست موت کے مقدمے میں ہرجانے کی ادائیگی کا حکم دیا ہے۔
86سالہ سرور کے نوجوان بیٹے کی موت کے مقدمے کی فوجداری کارروائی میں اگرچہ تمام پولیس اہلکاروں کو بری کردیا گیاتھا تاہم انہوں نے 1991 میں سندھ ہائیکورٹ میں ہرجانے اور معاوضے کی ادائیگی کیلیے دیوانی مقدمہ دائر کیا تھا۔
مقدمہ کا فیصلہ 2017 میں کیا گیا تھا اور سندھ ہائی کورٹ نے صوبائی حکومت کو ہدایت کی تھی کہ مدعی کو رقم ادا کرنے کے ساتھ ساتھ مقدمہ قائم کرنے کی تاریخ سے رقم کی وصولی تک 10 فیصد سود ادا کیا جائے۔بعدازاں درخواست گزار نے 2018 میں عدالتی فیصلے پر عملدرآمدکی درخواست دائر کی جس پر صوبائی حکام نے انٹرا کورٹ اپیل دائر کی جسے رواں سال اپریل میں خارج کر دیا گیا۔
بعدازاں عدالت نے صوبائی حکومت کو معاوضے کی ادائیگی کے لیے بار بار ہدایات جاری کیں تاہم حکومت نے ہائیکورٹ کے ناظرکے پاس رقم جمع نہیں کروائی۔ رقم ایس ایچ سی کے نذیر کے پاس جمع نہیں کرائی۔بعدازاں اسٹیٹ بینک نے عدالتی احکام پر سندھ حکومت کے اکاؤنٹ سے مطلوبہ رقم نکال کر سندھ ہائیکورٹ میں جمع کرادی۔
یاد رہے کہ اپریل 1990 میں اس وقت کےسی آئی اے کے ایس ایس پی سمیع اللہ خان مروت، انسپکٹر چوہدری محمد لطیف اور اے ایس آئی الطاف حسین سمیت دیگر پولیس اہلکاروں کیخلاف شہری 24سالہ محمد شکیل کو جوڑیا بازار سے اٹھانے کے بعدسی آئی اے سینٹر صدر میں حراست میں رکھ کر تشدد کا نشانہ بناکر قتل کرنے کا مقدمہ درج کیاگیاتھا۔
عدالتی انکوائری میں مقدمے میں نامزد سی آئی اے اہلکار اپنے مجرمانہ فعل کو نے اس حقیقت کے باجود ملزمان کو بری کردیا۔ مقدمے کی کارروائی کے دوران مقدمے میں نامزد سی آئی اے کے زیادہ تر اہلکار انتقال کر چکے ہیں چھپانے کیلیے ثبوت گڑھ کر جھوٹی انکوائری رپورٹس تیار کرنے اور متعلقہ حکام سے جھوٹ بولنے کے مرتکب قرار پائے گئے تاہم ٹرائل کورٹ۔
مقتول کے والد سرور نے 1991 میں سیکریٹری داخلہ، آئی جی سندھ، ڈی آئی جی کراچی اور سی آئی اے حکام کو فریق بناتے ہوئے سندھ ہائیکورٹ میں ہرجانے اور معاوضے کی ادائیگی کیلیے دیوانی مقدمہ دائر کیاتھا جو تقریباً26 سال تک زیرالتوا رہا۔
جون 2017 میں جسٹس محمد فیصل کمال عالم کی سربراہی میں سنگل جج بینچ نے مدعا علیہان کے خلاف مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا تھا کہ چونکہ مدعی کے بیٹے کی حراست میں موت اب ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے اور درحقیقت متعلقہ پولیس حکام ایک سنگین غلط فعل کے مرتکب قرار پائے ہیں لہٰذا یہ مقدمہ یہ فیٹل ایکسیڈنٹ ایکٹ 1855 کے دائرہ کار میں آتا ہے۔