کراچی کی قدیم عمارتیں خستہ حالی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار
سندھ حکومت اور محکمہ آثار قدیمہ کی عدم دلچسپی کے باعث کراچی کی بیشتر قدیم عمارتوں پر قبضہ مافیا نے قبضہ کر رکھا ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں قدیم عمارتیں وقت کے ساتھ خستہ حالی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی جارہی ہیں۔ حکومت سندھ کی عدم دلچسپی کے باعث انگریزوں کے زمانے کی عمارتوں کی خستہ حالی بڑھتی جارہی ہے۔ کراچی میں پرانی عمارتوں کو تباہ کرنے میں شہری حکومت کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
شہری حکومت اور سندھ حکومت کی عدم دلچسپی کے باعث کراچی میں موجود تاریخی عمارتیں خستہ حال ہیں۔ متعدد عمارتیں قبضہ گروہوں نے ہتھیا لی ہیں یا انہیں گرا دیا گیا ہے۔ مگر بے بس شہری حکومت قبضہ مافیا کے خلاف ایکشن لینے سے قاصر ہے۔ حکومتی عدم دلچسپی کی وجہ سے شہر کے علاقوں صدر، لائٹ ہاؤس اور بندر روڈ سمیت کئی پرانی عمارتوں کا نقشہ تبدیل ہونے لگا ہے۔
سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود سندھ حکومت قومی ورثے کو دی گئی عمارتوں کو سنبھالنے میں ناکام رہی ہے۔ محکمہ ثقافت قومی ورثہ صرف کاغذوں تک سنبھالنے تک محدود ہے جبکہ مافیا اب پرانی عمارتوں کی خوبصورتی ختم کرنے کے در پر ہے۔
کراچی کی تاریخ
کراچی شہر 1729 میں وجود میں آیا جس کی بنیاد منوڑہ کے قریب مچھرے بونجومل نے رکھی۔ 1839 میں یہاں انگریز آئے اور عمارتیں بنانا شروع کیں۔ انگریز یہاں تجارت کرنا چاہتے تھے اس لیے یہاں بازار بنوائے جو آج بھی موجود ہیں۔ انگریزوں نے جہاں مارکیٹیں تعمیر کیں وہیں انہوں نے بڑے بڑے گرجہ گھر، پارک اور اسپتال بھی تعمیر کیے۔
ماروی مظہر
کراچی کی قدیم عمارتوں کی خستہ حالی سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے ماہر تعمیرات اور رکن سندھ اسمبلی ماروی مظہر نے کہا کہ ‘لوگوں کو اپنے قومی ورثے سے متعلق تعلیم نہیں دی گئی۔ جو لوگ ان عمارتوں میں رہتے ہیں انہیں معلوم نہیں ہے کہ ہمارا قومی ورثہ ہے کیا؟ ان عمارتوں کی خصوصیت کیا ہے؟ محکمہ آثار قدیمہ کو چاہیے کہ انہیں بتائے کہ قومی ورثہ کتنا ضروری ہے اور ان کے کیا مقاصد ہیں؟
ماروی مظہر نے کہا کہ ‘اگر ہم ان عمارتوں کو بھول گئے تو یہ مزید خستہ حال ہوجائیں گی۔ ان عمارتوں کو قومی ورثہ قرار دے کر ان کی حفاظت کا ایک مکمل نظام وضع کیا جائے گا۔ ان عمارتوں کو سنبھالنے سے سیاحت بڑھے گی اور معیشت کو فائدہ ہوگا۔’
انہوں نے کہا کہ ‘ان عمارتوں کو ختم کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ مافیا کا ہے اور حکومت کی عدم دلچسپی کے باعث عمارتیں ختم ہورہی ہیں۔ سول سوسائٹی کو چاہیے وہ ان عمارتوں کو بچانے کے لیے آگے آئے۔’
عبداللہ ہارون
عبداللہ ہارون نے کہا کہ ‘سندھ کی حکومتوں نے عمارتوں کا تحفظ نہیں کیا۔ پوری دنیا میں پرانی عمارتوں کا خیال رکھا جاتا ہے، صفائی ستھرائی سمیت ان عمارتوں کی عمر بڑھانے کے نئے طریقے ڈھونڈے جاتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ایسے اقدامات یہاں نہیں اٹھائے جاتے۔ یہاں انسانوں کو سنبھالا نہیں جاتا عمارتیں کہاں سنبھالی جائیں گی۔ حکومت کی عدم دلچسپی کی وجہ سے کراچی کی قدیمی عمارتیں معدومیت کا شکار ہوتی جارہی ہیں۔’
انہوں نے کہا کہ ‘چارلس نیپیئر نے کراچی کو مشرق کی رانی کا لقب دیا تھا۔ خوبصورتی کو جان بوجھ کے ختم کیا جارہا ہے۔ پہلے بندر روڈ سے کینٹ اسٹیشن تک خوبصورت عمارتیں نظر آتی تھیں لیکن اب وہاں وہ موجود نہیں ہیں۔ اس کی وجہ صرف حکومت کی عدم دلچسپی ہی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
’وفاق سے سندھ کو بروقت فنڈز نہیں ملتے‘مراد علی شاہ
سابق ایڈمنسٹر کراچی فہیم الزمان
سابق ایڈمنسٹر کراچی فہیم الزمان نے کہا کہ ‘پہلے ان عمارتوں میں ہندو رہتے تھے، پاکستان بننے کے بعد مسلمان آئے۔ ایک گھر میں چار چار خاندانوں نے رہنا شروع کیا۔’
انہوں نے کہا کہ ‘ان عمارتوں سے نکل کر مزید عمارتیں بنانے کی کوشش نہیں کی گئی جس کے باعث یہ عمارتیں خوبصورتی سے محروم ہوتی گئیں۔ عمارتوں کے نیچے دکانیں بن گئیں۔ ملک کی معیشت میں سب سے زیادہ حصہ بنانے والے شہر پر جتنا خرچ ہونا چاہیے وہ نہیں ہورہا۔’
اختر بلوچ
سینیئر صحافی اختر بلوچ نے کہا کہ ‘سب عمارتیں تقریباً ختم ہوگئی ہیں۔ یہ قانون میں تھا کہ 70 سال پرانی عمارت کو توڑا نہیں جائے گا لیکن یہاں ایسا نہیں ہے۔ محکمہ ثقافت اس دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کر رہا جو اسے کرنی چاہیے۔ کچھ سال پہلے گرومندر پر قدیم عمارت میں بنے اسکول کو بلڈر مافیا رات کے اندھیرے میں گرا کے چلے گئے۔’
انہوں نے کہا کہ ‘حکومت سندھ کو چاہیے کہ ایسی فورس بنائی جو قدیمی عمارتوں کے معاملے کو دیکھے۔ پہلے اردو بازار برنس روڈ پر اچھی عمارتیں ہوا کرتی تھیں لیکن اب وہ دکھائی نہیں دیتیں۔’