برطانیہ کی ریڈ لسٹ میں پاکستان کا اندراج غیرمنصفانہ کیوں؟

پاکستان میں کرونا کیسز کی شرح انڈیا، جرمنی، فرانس اور اٹلی سے کم ہونے کے باوجود بھی برطانیہ نے کرونا کی وباء کے پیش نظر پاکستان کو ہی سفری پابندیوں کی ریڈ لسٹ میں شامل کردیا ہے

 پاکستان میں کرونا کیسز کی شرح انڈیا، جرمنی، فرانس اور اٹلی سے کم ہونے کے باوجود برطانیہ نے بظاہر کرونا کی وباء کے پیش نظر پاکستان کو ریڈ لسٹ میں شامل کردیا ہے۔ ریڈ لسٹ میں شامل ہونے کے بعد پاکستان پر سفری پابندیاں لگ گئی ہیں اور پاکستانی باشندے برطانیہ سفر نہیں کر سکیں گے۔

پاکستانیوں کے مطابق برطانوی حکومت نے پاکستان کو غیر منصفانہ طور پر ریڈ لسٹ میں شامل کیا ہے کیونکہ ملک میں کرونا کے کیسز کی شرح فرانس، جرمنی، اٹلی اور انڈیا سے کہیں کم ہے۔ انڈیا میں روزانہ کی بنیاد پر 75 ہزار کرونا کے کیسز رپورٹ ہورہے ہیں۔ جبکہ جرمنی، فرانس اور اٹلی میں یومیہ 20 ہزار کے قریب کرونا کیسز سامنے آتے ہیں۔ اس کے بر عکس پاکستان میں روزانہ 5 ہزار کرونا کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔

برطانیہ کی ریڈ لسٹ میں متحدہ عرب امارات، قطر، جنوبی افریقہ اور برازیل سمیت 35 ممالک پہلے ہی شامل ہیں تاہم اب پاکستان کو بھی اس لسٹ میں شامل کرلیا گیا ہے۔ پاکستان پر لگنے والی سفری پابندیوں کا اطلاق آئندہ جمعے یعنی 9 اپریل کو صبح 4 بجے سے ہوگا۔ پاکستان کے ساتھ کینیا، بنگلا دیش اور فلپائن کو بھی ریڈ لسٹ میں شامل کیا گیا ہے۔

پاکستان میں جاری کرونا کی تیسری اور خطرناک لہر کا سبب بننے والی برطانوی طرز کا کرونا وائرس بھی برطانیہ سے ہی پاکستان پہنچا تھا لیکن پاکستان نے برطانیہ پر کوئی پابندی نہیں عائد کی تھی۔

ریڈ لسٹ میں شامل کیے جانے کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پاکستان میں تعینات برطانوی ہائی کمشنر کرسچن ٹرنر نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا ہے۔ ویڈیو پیغام میں کرسچن ٹرنر نے کہا کہ کرونا وائرس کو قابو کرنے کے لیے برطانیہ اپنی سرحدوں کے حوالے سے صورتحال کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لیتا رہا ہے۔ بتانا چاہتا ہوں کہ برطانیہ سفر کرنے کے حوالے سے پاکستان کو ریڈ لسٹ میں شامل کر لیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان سے صرف ان افراد کو برطانیہ سفر کرنے کی اجازت ہوگی جو برطانوی یا آئرش شہری ہیں یا ان کے پاس برطانیہ میں رہائش کے حقوق ہیں۔

کرسچن ٹرنر نے بتایا کہ جن پاکستانیوں کے پاس برطانیہ میں رہائشی حقوق ہیں انہیں بھی برطانیہ پہنچنے پر 10 روز کے لیے قرنطینہ ہوٹل کے اخراجات برداشت کرنے ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ برطانیہ اور پاکستان کے درمیان براہ راست پروازیں جاری رہیں گی تاہم ان کا شیڈول متاثر ہوسکتا ہے۔ اس لیے سفر کرنے سے پہلے اپنی متعلقہ ایئر لائن سے معلومات حاصل کر لیں۔

یہ بھی پڑھیے

کرونا کی تیسری لہر پر پارلیمان کا مایوس کن کردار

برطانوی ہائی کمشنر نے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ دونوں ممالک کے مضبوط تعلقات پر یقین رکھنے والوں کے لیے یہ اچھی خبر نہیں ہے۔ برطانیہ سفر کرنے سے متعلق ٹریول ایڈوائزری دیکھتے رہیں کہ قرنطینہ ہوٹل کی بکنگ کیسے کی جاسکتی ہے کیونکہ 10 دن کے لیے قرنطینہ ہوٹل میں قیام ضروری ہوگا۔

ادھر برطانیہ کی پاکستانی نژاد رکن پارلیمنٹ ناز شاہ نے برطانوی وزیر خارجہ ڈومینک راب کو خط لکھ کر پاکستان کے ریڈ لسٹ میں اندراج سے متعلق سوالات کیے ہیں۔ خط کے متن میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کو کس سائنسی بنیاد پر ریڈ لسٹ میں ڈالا گیا ہے؟ جبکہ فرانس، جرمنی اور انڈیا کی نسبت پاکستان میں کرونا کی وباء کے کیسز کی شرح کم ہے۔

انہوں نے اس اقدام کو پاکستان اور پاکستانی کمیونٹی کے خلاف قرار دیتے ہوئے لکھا کہ برطانوی حکومت اپنے عوام کے تحفظ کی بجائے سیاسی فیصلے کر رہی ہے۔

ناز شاہ نے بتایا کہ ریڈ لسٹ کے معاملے پر انہوں نے پارلیمنٹ میں سوال کیا ہے لیکن کوئی قابل اطمینان جواب نہیں دیا گیا۔ انہوں نے کہا ہے کہ یہ بتانے میں وقت لگے گا لیکن وہ اپنے سوال کے جواب کا انتظار کر رہی ہیں۔

برطانوی رکن پارلیمنٹ نے تازہ اعداد و شمار بتاتے ہوئے کہا کہ فرانس، جرمنی اور انڈیا میں کرونا کی وباء تیزی سے پھیل رہی ہے۔ فرانس میں ایک لاکھ میں سے 403 افراد، جرمنی میں ایک لاکھ میں سے 137 اور انڈیا میں ایک لاکھ میں سے 24 افراد روزانہ کی بنیاد پر کرونا سے متاثر ہورہے ہیں۔ فرانس، جرمنی اور انڈیا کی نسبت پاکستان میں کرونا کی وباء کے کیسز کی شرح کم ہے اور پاکستان میں روزانہ کی بنیاد پر ایک لاکھ میں سے 13 افراد کرونا سے متاثر ہورہے ہیں۔ اس پس منظر میں جرمنی، فرانس اور انڈیا کو ریڈ لسٹ میں کیوں شامل نہیں کیا گیا؟

اِس معاملے پر 24 گھنٹے سے زیادہ وقت گزر جانے کے بعد بھی کسی پاکستانی حکام کا بیان سامنے نہیں آیا تھا تاہم سنیچر کی صبح وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے سربراہ اسد عمر نے سماجی ربطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنا رد عمل ظاہر کیا ہے۔

وفاقی وزیر نے ٹوئٹ میں یہ تسلیم کیا ہے کہ ہر ملک کو اپنے باشندوں کی صحت کے تناظر میں فیصلے کرنے کا پورا حق حاصل ہے لیکن یہاں یہ سوال بھی درست ہے کہ کیا پاکستان کو ریڈ لسٹ میں شامل کیے جانے کا فیصلہ سائنسی بنیادوں پر تھا یا خارجہ پالیسی کی بنیاد پر۔

متعلقہ تحاریر