میڈیا ورکرز کی تنخواہیں اور بقایہ جات قانون کے دائرے میں آئیں گے
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات نے میڈیا کارکنان کی تنخواہوں، تقرریوں اور بقایہ جات پر قانون سازی کرنے پر اتفاق کرلیا ہے۔
پاکستان میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کی ذیلی کمیٹی نے میڈیا ورکرز کی تنخواہوں اور تقرریوں سمیت بقایہ جات پر قانون سازی کرنے پر اتفاق کرلیا ہے۔ کمیٹی کا کہنا ہے کہ پیمرا قوانین میں ایسی ترمیم کی جائے کہ تنخواہ نہ دینے والے چینلز کے لائسنس کی تجدید نہ ہوسکے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس کنوینئر ناز بلوچ کی صدارت میں اجلاس ہوا جس میں بعض اداروں میں میڈیا کارکنان کی تنخواہوں اور بقایہ جات کی کئی ماہ سے عدم ادائیگی اور کٹوتیوں کا معاملہ زیر غور آیا۔
میڈیا مالکان کی تنظیم کا موقف
میڈیا مالکان کی تنظیم پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن (پی بی اے) کے عہدیدار شکیل مسعود نے موقف اختیار کیا ہے کہ ’وفاقی و صوبائی حکومتوں کے ذمے 6 ارب روپے کے بقایہ جات ہیں جو کئی کئی سالوں سے ادا نہیں کیے جارہے ہیں۔ جب اشتہارات بھی 60 فیصد کم ہوجائیں اور بقایہ جات بھی نہ ملیں تو تنخواہیں کہاں سے دی جائیں؟ پھر بھی اکثر ادارے تنخواہیں دے رہے ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
پاکستان میں صحافت سیاسی جماعتوں کی میراث
انہوں نے کہا کہ ’چند اداروں میں تنخواہوں کی عدم ادائیگی کا مسئلہ ہے اور اسے مل کر حل کرنا ہوگا۔ اسی طرح سیٹلائٹ فیس کم کرنی ہوگی اور سبسیڈی دینا ہوگی اور میڈیا کو انڈسٹری قرار دینا ہوگا۔‘
صحافتی تنظیم کا موقف
پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل ایم بی سومرونے ذیلی کمیٹی کو تحریری سفارشات پیش کیں جن میں شارٹ ٹرم، مڈٹرم اور لانگ ٹرم اقدامات کے ذریعے میڈیا کارکنان اور میڈیا انڈسٹری کے مسائل کا حل پیش کیا گیا ہے۔ ایم بی سومرو نے کہا کہ ’الیکٹرانک میڈیا کے کارکنان کے لیے 18 سال سے قانون بنانے کی جدوجہد جاری ہے۔ چوتھی حکومت آگئی مگر الیکٹرانک میڈیا کے کارکنان کے تحفظ کے لیے قانون نہیں بن سکا جس کی وجہ سے وہ کسی بھی فورم پر اپنی درخواست تک لے کر نہیں جاسکتے۔ جب تک قانون نہیں بنے گا کسی مسئلے کا مستقل حل نہیں نکلے گا۔‘
پی آر اے کا چارٹر آف ڈیمانڈ
پنجاب روینیو اتھارٹی (پی آر اے) کے چارٹر آف ڈیمانڈ میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کی رولنگز کی روشنی میں دونوں ایوانوں پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے۔ الیکٹرانک میڈیا ایکٹ لایا جائے، اشتہارات و بقایہ جات کو تنخواہوں سے مشروط کیا جائے۔
تنخواہوں کی ادائیگی بینک کے ذریعے کی جائے۔ تمام میڈیا اداروں کو پابند بنایا جائے کہ وہ ہر تین ماہ بعد اپنی سیلری کلیئرنس رپورٹ وزارت اطلاعات کو جمع کرائیں۔ تمام میڈیا کارکنان کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لیے ہیلپ لائن قائم کی جائے۔ تمام میڈیا کارکنان کو کرونا سے بچاؤ کی ویکسین لگائی جائے۔
گروپ انشورنس کی جائے اور صحت کارڈز دیے جائیں۔ صحافیوں کی ناگہانی وفات کی صورت میں شہداء پیکیج دیا جائے۔ اشتہارات سے میڈیا مالکان اور حکومت ڈھائی ڈھائی فیصد میڈیا کارکنان فنڈز کے لیے جمع کرائیں۔
میڈیا کارکنان کے لیے قانون سازی کرنا ہوگی
قومی اسمبلی کی ذیلی کمیٹی برائے اطلاعات نے کہا ہے کہ میڈیا کارکنان کو تنخواہوں اور دیگر مسائل کے حل کے لیے قانون سازی کرنی ہوگی۔ لاکھوں روپے ماہانہ لینے والے اینکرز چینلز کے لیے بوجھ نہیں ہیں لیکن معمولی تنخواہ لینے والے فیلڈ اسٹاف کی تنخواہوں کے لیے رقم نہیں ہے۔
سیکریٹری اطلاعات شاہیرہ شاہدہ نے قائمہ کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا کہ میڈیا مالکان کی جانب سے حلف نامہ جمع کرایا گیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ وہ ملازمین کو تنخواہیں دیں گے۔ ایک ارب روپے ملنے کے باوجود ملازمین کو تنخواہیں ادا نہیں کی گئیں اور اسی وجہ سے ان کے واجبات رکے ہوئے ہیں۔
پی بی اے کی مخالفت
پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن کے مالکان نے قانون سازی کو میڈیا پر لٹکتی تلوار قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کا اعلان کیا ہے۔
بقایہ جات کی ادائیگی کے لیے اقدامات
سیکریٹری اطلاعات و نشریات شاہیرہ شاہد نے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو واجبات کی ادائیگی پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ’بقایہ جات کے لیے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ موجودہ حکومت کی پالیسی کے مطابق پہلے اس حکومت کے واجبات ادا کیے جائیں گے۔‘
کئی ٹی وی چینلز نے آڈٹ تک نہیں کرایا
کنوینئر کمیٹی ناز بلوچ نے کہا ہے کہ ’میڈیا کارکنان کو تنخواہ نہیں ملتیں جو افسوسناک ہے۔ وزیراعظم نے کہا تھا کہ کرونا کے دوران کوئی نوکری سے برخواست نہیں ہوگا مگر عملاً کئی میڈیا کارکنان کو فارغ کیا گیا۔ الیکٹرانک میڈیا نے دوسری کمپنیز کے نام پر ملازمین رکھے ہوئے ہیں اور کئی ٹی وی چینلز نے آڈٹ تک نہیں کرایا۔‘
چینلز مالکان کو 3 ماہ میں آڈٹ کروانا تھا
چیئرمین پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) سلیم بیگ نے کمیٹی کو بتایا کہ ’چینلز مالکان نے 3 ماہ کے اندر آڈٹ کروانا تھا مگر فنانشل اسٹیٹمنٹ پیمرا کو جمع نہیں کرائی گئی۔ پہلے یہ معاملہ عدالت میں تھا اور اب کرونا کی وجہ سے معاملہ معطل ہے۔‘
حکومت کو 6 ارب روپے ادا کرنے ہیں
پی بی اے کے عہدیدار شکیل مسعود نے کہا ہے کہ ’حکومت کے ذمے 6 ارب روپے کے واجبات ہیں۔ ایک حد تک خسارہ برداشت کیا جاسکتا ہے۔ پی ٹی وی میں بھی خسارہ کی وجہ سے لوگوں کو فارغ کیا گیا۔ فنانشل اسٹیٹمنٹ ایس ای سی پی کے پاس موجود ہے۔ 60 سے 70 فیصد ریونیو خسارہ کی نذر ہے۔‘
میڈیا کارکنان کے لیے قانون سازی کرنا ہوگی
رکن کمیٹی محمد وسیم نے کہا ہے کہ ’ایسی قانون سازی کرنی ہوگی جس سے میڈیا کارکنان اور مالکان کا تحفظ ہوسکے۔‘
رکن کمیٹی کنول شوزب نے کا کہنا ہے کہ ’میڈیا کارکنان کے مسائل پر 2 سال میں بہت گفتگو ہوچکی ہے۔ اب انہیں حل کرنا ہے اور قانون سازی کرنا ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
کرونا کے باعث مزید 2 صحافی انتقال کر گئے
کنونیئر کمیٹی ناز بلوچ نے کہا ہے کہ ’میڈیا مالکان اینکرز کو 12 لاکھ روپے ادا کرتے ہیں لیکن کارکنان کی 30 سے 35 ہزار تنخواہ ادا نہیں کی جاتی۔‘ جس پر ٹی وی مالکان نے کہا کہ ’پیمرا کی جانب سے نوٹس پیریڈ دیا جاتا ہے اور اداروں میں تنخواہ نہیں دی جاتی ہے۔‘
سیکریٹری اطلاعات نے اجلاس کو بتایا کہ 6 ارب روپے کا معاملہ عدالت میں ہے۔ ایک ارب کی ادائیگی گذشتہ سال کی ہے۔ مالکان کا کہنا ہے ساری رقم ملے گی تو بقایہ جات ادا کریں گے۔
میڈیا مالکان کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت نے 50 کروڑ روپے نہیں ادا کیے ہیں۔ جس پر حکام نے کہا وہ ادا کرنے کو تیار ہیں۔
ایک ہزار 66 میڈیا ملازمین کی برطرفی
کنوینئر کمیٹی ناز بلوچ نے کہا کہ ’نجی ٹی وی چینل جیو نے قرضے لے کر تنخواہوں کی ادائیگیاں کی ہیں تو باقی کیوں نہیں کر سکتے؟ اینکرز کو 12 لاکھ روپے ادائیگیاں ہوتی ہیں لیکن ملازمین کے لیے مسائل آجاتے ہیں۔ 1066 ملازمین کو برطرف کیا جا چکا ہے۔ انہیں کہا جاتا ہے کہ اگر کہیں بتایا تو بقایہ جات نہیں ملیں گے۔‘
میڈیا مالکان سے 20 اپریل تک سفارشات طلب
کنوینئر ذیلی کمیٹی ناز بلوچ نے کہا کہ پی آر اے کی تحریری سفارشات مل گئیں۔ باقی میڈیا کارکن تنظیمیں اور میڈیا مالکان 20 اپریل تک اپنی سفارشات تحریری طورپر کمیٹی کو دیں۔