لاہور:انسانی حقوق کانفرنس یا فوج مخالف اجتماع
گذشتہ روز پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں انسانی حقوق کے موضوع پر دو روزہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے پہلے روز چیف جسٹس کے علاوہ بعض سینیئر وکلا، ججز، صحافی اور سیاسی رہنما سمیت کئی اہم شخصیات موجود تھیں یہ تقیرب تو انسانی حقوق کےحوالے سے تھی لیکن یہ فوج مخالف اجتماع بن گئی۔
کانفرنس گوکہ انسانی حقوق کے عنوان سے عاصمہ جہانگیر کی یاد میں منعقد کی گئ تاہم تقریب میں منظم انداز میں پاک فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کی گئی ، پاک فوج جو کہ اندرونی اور بیرونی دونوں جانب سے دشمنوں سے نبردآزما ہے اور یہ وہی فوج نے جس نے دہشتگردی کے خلاف دنیا کا سب سےبڑا آپریشن کامیابی سے مکمل کرکے سیکڑوں شہادتوں کے بعد پاکستان کو امن کا گہوارہ بنایا ہے جہاں رونقین لوٹ آئی ہیں ، ملک میں بیرونی سرمایا کاری کے ساتھ بیس سالوں سے بند عالمی کرکٹ کے دروازے بھی کھل گئے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک دشمن عناصر کو پاکستان کی کامیابیاں حضم نہیں ہورہی اس لئے مسلح افواج کو بدنام کرنے کے لئے ایک منظم سازش کی جارہی ہے بعض عناصر اپنے سیاسی مقاصد کو ہوا دینے کے لیے ناپسندیدہ عمل میں مشغول ہیں جو افواج پاکستان کے لیے انتہائی بدنامی اور مایوسی کا باعث ہے۔
ایسا ہی ایک واقع گذشتہ روز لاہور میں انسانی حقوق کے موضوع پر دو روزہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں دیکھنےمیں آیاجہاں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر علی احمد کرد نےاپنی تقریر میں ’ایک جرنیل، ایک جرنیل، ایک جرنیل‘ کہا تو ان کے ساتھ کانفرنس میں دیگر وکلا نے نعرے بازی شروع کر دی۔انھوں نے کہا کہ ’ایک جرنیل ملک کی 22 کروڑ عوام پر حاوی ہے، دو ہی صورتیں ہیں تب ہی برابری ہوگی یا تو اس جرنیل کو نیچے آنا پڑے گا یا لوگوں کو اوپر جانا پڑے گا۔
انھوں نے کہا کہ ان جرنیلوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی ضرورت ہے جو گذشتہ ستر سالوں سے ہمیں آنکھیں دکھا رہا ہے انھوں نے کہا کہ پاکستان کی عدلیہ کو ’رول آف لا انڈیکس‘ میں 126ویں نمبر پر ’جرنیلوں نے پہنچایا ہے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سینئر صحافی حامد میر نے چیف جسٹس آف پاکستان کے اس دعوے کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان میں سب ہی جانتے ہیں کہ ہمارا میڈیا آزاد نہیں ہے، اگر میڈیا آزاد ہے تو صحافیوں اسد طور، مطیع اللہ جان اور ابصار عالم کے کیسز میں انصاف کیوں نہیں ہوا۔
یہ بھی پڑھیے
ناقدین کا پی ایم ڈی اے بل کے پیچھے فوج کے ملوث ہونے کا الزام
افواج کے خلاف تنقید کو جرم قرار دینے پر کابینہ کی مخالفت
حامد میر نے پریس کی آزادی کے بارے میں 40 سال پہلے حبیب جالب کا حوالہ دیتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان سے کہا کہ وہ اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے ان مقدمات پر ازخود نوٹس لیں انھوں نے کہا کہ ملک میں عدلیہ آزاد نہیں ہے اگر میڈیا آزاد نہیں ہے اور اس کے نتیجے میں جمہوریت نہیں ہے، پاکستان میں ہائبرڈ جمہوریت ہے جو ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔
تقریب میں اپنے خیالات کا اظہارکرتےہوئے سابق چیئر مین پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا )ابصار عالم نے دعویٰ کیا کہ جب بطورچیئرمین پیمرا میں نے عامر لیاقت کے شو پر پابندی لگائی کیونکہ وہ صحافیوں کی فیملی کو گالیاں دیتے تھے، دشنام طرازی، کفر کے فتوے لگاتے تھے، اخلاق سے گری ہوئی گالیاں دیتے تھے تو اس حوالے سے جنرل فیض حمید نے مجھے عامر لیاقت پر پابندی ختم کرنے کے لئے کہا، بصار عالم نے دعویٰ کیا کہ اسی دوران جنرل فیض حمید کا مجھے فون آیا کہ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں، ہم نے سمجھا کوئی سیکیورٹی ایشو ہوگا، وہ آئے اور کہنے لگے عامر لیاقت کو کچھ نہ کہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میں نے جنرل فیض حمید کو انکار کردیا اور وہ چلے گئے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل بھی ابصار عالم پاک فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے رہےہیں گیارہ ستمبر 2020 کو پنجاب پولیس کی جانب سے سابق چیئرمین ابصار عالم پر پاک فوج کے خلاف عوام کو اکسانے کا مقدمہ درج کیا گیا تھا جبکہ ان کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت سنگین غداری کا مقدمہ درج کرنے کی درخواست بھی دی گئی تھی ۔