اپوزیشن کا سینیٹ سے واک آؤٹ ، حکومت نے اوگرا ترمیمی بل باآسانی منظور کرالیا

حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی دعوے دار اپوزیشن سینیٹ میں ایک مرتبہ پھر حکومت سے ہار گئی۔

سینیٹ میں متحدہ اپوزیشن زیادہ تعداد میں ہونے کے باوجود اوگرا بل کی مخالفت میں ووٹ ڈالنے کی بجائے ایوان سے واک آؤٹ کرگئی۔

حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی دعویدار اپوزیشن کے دعوے ایک بار پھر دھرے کے دھرے رہ گئے، سینیٹ میں اپوزیشن ارکان کی تعداد زیادہ ہونے کے باوجود حکومت نے اوگرا ترمیمی بل باآسانی منظور کرالیا۔

اپوزیشن نے بل کی مخالفت میں تقاریر تو کیں مگر جب بل کی مخالفت میں ووٹ دینے کا وقت آیا تو ماضی کی طرح ایک بار پھر ایوان سے واک آؤٹ کرگئی۔

یہ بھی پڑھیے

حکومتی اتحادی اپوزیشن سے مستقبل کا گیم پلان پوچھنے لگے

بلاول بھٹو نے 27 فروری کے لانگ مارچ کے پلان کی منظوری دیدی

سینیٹ کا اجلاس چیئرمین صادق سنجرانی کی زیرصدارت اجلاس ہوا جس میں آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کا دوسرا ترمیمی بل وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے پیش کیا۔

اپوزیشن نے تو اوگرا بل کی مخالفت میں تقاریر تو کیں، ووٹ نہیں دیا

حزب اختلاف کے ارکان کی جانب سے بل کی مخالفت میں تقاریر کی گئیں۔ مگر  جب بل پر رائے شماری کا مرحلہ آیا تو اپوزیشن ارکان کی تعداد حکومتی سینیٹر سے زیادہ تھی اور اپوزیشن جس اوگرا بل کی مخالفت کررہی تھی اسے رائے شماری میں مسترد کرسکتی تھی مگر اپوزیشن نے جان بوجھ کر رائے شماری کے موقع پر ایوان سے واک آؤٹ کیا۔

چئیرمین نے جب ووٹنگ کروائی تو ایوان میں صرف حکومتی سینیٹرز ہی موجود تھے جنہوں نے بل کے حق میں ووٹ دیا اس طرح حکومت نے اوگرا کا ترمیمی بل با آسانی منظور کروالیا۔مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں ڈالا گیا۔

دلاور گروپ نے حکومت کی حمایت میں ووٹ ڈالے

سینیٹ میں دلاور خان گروپ کے سینیٹرز نصیب اللہ اور احمد خان نے بل کے حق میں ووٹ دیا جبکہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر کہدہ بابر جب ایوان میں پہنچے تو ووٹ گنے جاچکے تھے اس لئے ان کا ووٹ شمار نہیں کیا گیا۔ وفاقی وزیر حماد اظہر بل کی منظوری کے بعد سینیٹ میں پہنچے۔

ایل این جی کی قیمت عوامی سماعت کی بجائے اب اوگرا متعین کرے گا۔اپوزیشن

سینٹ میں دوسرا اوگرہ ترمیمی بل منظوری کے لیے پیش کیا گیا تو جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے بل کی مخالفت کی۔ان کا موقف تھا کہ کہ ایل این جی کی قیمت کا تعین عوامی سماعت سے کیا جاتا ہے مگر اب ترمیمی قانون کے بعد اوگرا کو اختیار مل جائے گا کہ وہ جتنی چاہے قیمت بڑھائے ،جو عوام کے مفاد میں نہیں۔

سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اور پیپلز پارٹی کے رہنما یوسف رضا گیلانی کا موقف تھا کہ جو اختیارات صوبوں کے ہیں انہیں وفاق استعمال نہیں کر سکتا۔

سینیٹر مشتاق احمد کا کہنا تھا کہ یہ بل آئی ایم ایف کے کہنے پر لایا گیا ہے۔ ایسی قانون سازی پارلیمنٹ کا کردار ختم کرنے کے مترادف ہے۔

پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی کا کہنا تھا کہ حکومت اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعے بل لائی ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔

سینیٹر شیری رحمان کا کہنا تھا کہ کسی ملک میں ایسا نہیں ہوتا کہ ریگولیٹری اتھارٹیز کو براہ راست عالمی اداروں سے جوڑا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اسی طرح بل پاس ہوں گے تو صوبوں کے حقوق کہاں جائیں گے۔

جب کہ وفاقی وزیر شبلی فراز کا موقف تھا کہ ریگولیٹری اتھارٹی حکومت کے زیر اثر نہیں ہونی چاہیے۔حکومت ریگولیٹری اتھارٹیز کو ریگولرائز کر رہی ہے۔

الائیڈ ہیلتھ پروفیشنل کونسل بل بھی منظور

سینٹ اجلاس میں الائیڈ ہیلتھ پروفیشنل کونسل بل وزیر مملکت علی محمد خان نے پیش کیا۔ بل پر رائے شماری ہوئی تو حکومت  اور اوزیشن کی جانب سے بھی 29 ،29 ووٹ ڈالے گئے۔

ووٹ برابر ،چئیرمین سینیٹ نے حکومت کے حق میں ووٹ دیا

ووٹوں کی تعداد برابر ہونے پر چیئرمین سینیٹ بولے  "پھر مصیبت میرے سر آگئی”۔

بعد میں چیئرمین سینٹ نے اپنا ووٹ حکومت کے پلڑے میں ڈال دیا۔ یوں الائیڈ ہیلتھ پروفیشنل کونسل بل بھی ایوان نے منظور کرلیا۔

متعلقہ تحاریر