حکومت کی نیب کے پر کاٹنے اور لولا لنگڑا احتساب قانون بنانے کی تیاری

اس قانون سے زرداری،فریال تالپور ،مراد علی شاہ،نواز شریف، شہاب شریف،حمزہ شہباز اور مریم صفدر کو بچایا جائے گا۔ 

کراچی : پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ کی مخلوط حکومت نے قومی احتساب بیورو(نیب) کو یکسر ختم کرنے کی کوشش کی لیکن لانے والوں کی وارننگ اور اس میں ناکامی سے دوچار ہونے پر اب اس قانون کو (لولا لنگڑا) بنانے پر عمل پیرا ہے۔

کاروباری حضرات کے بعد ارکان اسمبلی او ر سیاسی شخصیات کی گرفتاری سے قبل اجازت لینے سے مشروط اور نیب مقدمات کو صوبائی حکومت (انٹی کرپشن)کے حوالے کرنے کی تیاری جاری ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جھوٹے شخص عمران خان کا نام لینے کو بھی دل نہیں کرتا، مریم نواز

آئندہ لوٹوں کو ووٹ دیا تو کبھی فیصل آباد نہیں آؤں گا، عمران خان

اس حوالے سے سندھ کی اینٹی کرپشن ڈپارٹمنٹ خود بدنام زمانہ ہے اور وہ ہر کیس کو حل کرنے کے بجائے کرپشن میں خود حصہ دار ہو جاتی ہے۔

اس طرح سندھ میں کرپشن میں ملوث تمام بڑے مگرمچھوں کو نیب کے تمام کیسوں سے باآسانی گلوخلاصی ہو جائے گی۔اس قانون میں تبدیلی کا انحصار سیاسی جماعتوں کے مابین تعلقات پر ہوگا۔

اپوزیشن (عمران خان)حکومت پر دباؤ بڑھانے میں کتنی کامیاب ہو سکتی ہے اور تحقیقاتی اداروں کے حوالے سے کیا رول ادا کریں گے یہ ایک سوالیہ نشان ہے؟۔

اس ضمن میں وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر وزرات قانون نے نیب آرڈیننس 1999ء میں بعض نقات پر تبدیل یا ترامیم کرنے کی سفارشات پر عملدرآمد کا مسودہ تیار کررہا ہے جن میں نیب کے ارکان اسمبلی کی گرفتاری سے قبل قومی و صوبائی اسمبلی کے اسپیکرز کی اجازت سے مشروط کرنے اور سیاسی شخصیات کی گرفتاری سے قبل وفاقی و صوبائی حکومتوں کی اجازت لازمی یا ضروری ہو گی،چونکہ نیب قوانین کو دو تہائی اکثریت سے ہی ختم کیا جا سکتا ہے جو اس حکومت کے پاس موجود نہیں ہے۔

اس بارے میں حکومت میں شامل جماعتوں خصوصا” سابق صدر آصف علی زرداری نے لندن مفرور،سزا یافتہ،اشتہاری مجرم نواز شریف سے لندن رابطہ کے دوران کیا ہے کیونکہ وہ خود منی لانڈرنگ،آمدن سے زیادہ اثاثے،اور قبضہ مافیا کی سرپرستی کرتے رہے ہیں۔

اسی طرح ان کی بہن فریال تالپور اور وزیر اعلی مراد علی شاہ پر فرد جرم عائد ہونی ہے لیکن طاقتور حلقوں کی ضرورت کی وجہ سے ان سب پر اب تک فرد جرم ہی عائد نہیں کیا جا سکا۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ نیب سے سب سے زیادہ تکلیف آصف علی زرداری کو ہے اسی لیئے وہ نیب کے پر کاٹنے اور اس کے خاتمہ پر سب سے زیادہ زور دے رہے ہیں۔تاہم لندن مفرورمجرم نے واضح کردیا ہے کہ حساس اداروں اور طاقتور حلقوں نے نیب آرڈنینس کے خاتمہ کی کھلی مخالفت کردی ہے پھر عمران خان اپنے ہر جلسے میں مجرموں کو بچانے کیلیئے نیب کو ختم کرنے کے سازش کے خلاف مسلسل مہم چلا رہے ہیں اس لیئے نیب آرڈنینس یکسر ختم نہیں کیئے جا سکتے ہیں،اس لیئے حکومت میں شامل تمام مجرمین و ملزمان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ نیب قوانین کو لولا لنگڑا یا غیر موثر کرنے اور سابق مقدمات پر نظرثانی کی جائے۔اس کیلیئے تیاری کی جا رہی ہے۔

ایک ذمہ دار ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب کی تمام تر محنت کا صلہ دینے کے بجائے ان کی محنت پر پانی پھیرنے کیلیئے تمام مقدمات کی جانچ پڑتال کے نام پر تمام فائلیں و اہم ریکارڈ پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔عنقریب فائلیں غائب ہوسکتی ہیں یا ن لیگ اور زرداری دور کی حسب روایت فائلوں کے جلنے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔

مفرورمجرم نواز شریف نے آصف زرداری پر یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ فوری طور پر چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کو ہٹایا نہیں جاسکتا،کیونکہ قوانین کے تحت انہیں ججوں کی طرح صرف جوڈیشنل کمیشن ہی ہٹا سکتا ہے۔البتہ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد نئے چیئرمین کی تقرری پر شہباز شریف سے جلد مشاورت ہو گی اس حوالے سے تمام  قانونی پہلوں کو دیکھ رہے ہیں۔

واضح رہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی بہن فریال تالپور،وزیر اعلی مراد علی شاہ،خورشید شاہ سمیت پیپلز پارٹی کے کئی اہم رہنماؤں پر نیب کے کئی مقدمات اور ریفرنس دائر ہیں۔اسی لیئے زرداری اور ان کے حواری نیب کے پر کاٹنے پر اپنی تمام تر توانائی صرف کر رہے ہیں اور زور لگارہے ہیں۔انہوں نے سندھ میں اینٹی کرپشن کی طرح اپنی نیب قائم کرنے کی کوشش کی تھی تاہم سپریم کورٹ کی ہدایت پر اسے ختم کر دیا گیا تھا۔اب وہ ایک بار پھر نیب کا قانون صوبائی معاملہ قرار دیکر نیب کے مقدمات صوبائی حکومت کے محکمہ انٹی کرپشن کے حوالے کرنے پر زور دے رہے ہیں جبکہ اراکین اسمبلی اور سیاسی شخصیات کی گرفتاری کیلیئے اجازت نامہ اسپیکرز سے مشروط کرنے اور نیب کے ہاتھ پاؤں باندھنے پر زور دے رہے ہیں،جس کا اظہار انہوں نے حال ہی میں بلاول ہاؤس میں ہونے والی پریس کانفرنس میں اپنے من پسند لفافہ صحافیوں کے سامنے بھی کیا تھا کہ ان کا اقتدار میں آنے کا مقصد اول نیب قوانین میں تبدیلیاں ہیں۔

سابق وزیر زاعظم عمران خان کے دور میں بعض حساس اداروں کی مداخلت کے باعث کاروباری،سرمایہ کار اداروں اور کارخانوں کے مالکان کی گرفتاری اور شامل تفیش سے نیب کو روک دیا گیا تھا جس کا اظہار اب عمران خان اپنے جلسوں میں بھی کر رہے ہیں اور انہوں نے اپنی زندگی میں جو خفیہ ٹیپ ریکارڈ کرائی ہے اس میں بھی اس کی تمام تر تفصیلات ریکارڈ کرائی ہیں جو وہ کسی بھی وقت منکشف کر سکتے ہیں جس سے ایوان حکومت میں زلزلے آ جائیں گے اور ان کے سرپرستوں پر لرزہ طاری ہو جائے گا۔

مخلوط حکومت میں شامل پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے رہنماوں کی اکثریت پر نیب ریفرنس اور مقدمات کا سامنا ہے۔ان مقدمات کا ڈٹ کر مقابلے کرنے کی بجائے حکومت کی ایماء پر ان کا خاتمہ یعنی این آراو 2(NRO-2)چاہتے ہیں جس کا اپوزیشن لیڈر عمران خان حکومت کے دوران اور آج کل ہر جلسوں میں اس کا برملا اظہار کر رہے ہیں۔نیب کے ایک ذمہ دار افسر کا کہنا ہے نیب کو باہر سے زیادہ نیب کے اندر کی  کالی بھٹریں (افسران و عملہ) نقصان پہنچا رہی ہیں۔

موجودہ حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کے ایماء پر بھرتی ہونے والے ملازمین ریفرنس، مقدمات کی ریکارڈز فائلیں غائب یا چوری کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔مقدمات کی اہم فائلیں غائب یا ان میں ردوبدل کرنے میں بھی تیزی آ گئی ہے اورثبوت یا ٹھوس شواہد مٹانے کی بھرپور کوششیں کی جا رہی ہیں،جبکہ سندھ کے بدنام زمانہ نیب افسران جنہوں نے کرپشن کیسز ختم کرنے، کیس خراب کرنے،کرپشن کے خلاف ثبوت ضائع کرنے میں اہم کردا ادا کیا ہے اور ٹیکنکل طریقے سے کروڑوں کی بندر بانٹ میں ملوث رہے ہیں ان میں سے بعض افسران پکڑے بھی گئے تھے انہیں  آصف زرداری کی خوائش پر آگے لانے کی تیاری کی جارہی ہے۔

اسی طرح نیب سندھ کے ضمیر عباسی سمیت سندھ نیب کے تمام افسران سے تحقیقات کریں تو سندھ کے تمام چھوٹے بڑے نیب مقدمات اور تفیش کے دوران اربوں روپے صرف سہولت کاری کرنے میں وصول کرنے کی تصدیق ہو جائے گی۔ان افسران نے ریکارڈ غائب کرنے کے علاوہ تحقیقات میں مدد کے نام پر رشوت اور کمیشن الگ وصول کیا تھا۔

مصدقہ ذرائع کا کہنا تھا کہ ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا کرپشن اسکینڈل میں نیب سندھ کے دو درجن سے زائد افسران ملوث ہیں۔اس لیئے سندھ میں نیب کے تحقیقاتی افسران نے اس سب سے بڑے اسکینڈل کا پنڈوا بکس کھلنے سے قبل بند کر دیا گیا ہے،اس کیس میں حسب معمول زرداری اور ان کے حواری مع ان کی بہن کے پوری طرح ملوث ہیں۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ کراچی اور سکھر میں تعینات اکثر  افسران سابق صدر آصف علی زرداری کے دور میں بھرتی ہوئے تھے ور ان کی بھرتی میں سابق وزیر قانون ایاز سومرو نے اہم کردار ادا کیا تھا(ان کے بارے میں اس زمانے میں مشہور تھا بلکہ سندھ کے اکثر وزراء بھی نجی محفلوں میں کہتے تھے کہ ایاز سومرو ایک ہزار روپے بھی نہیں چھوڑتے)۔

مذکورہ افسران سابق ڈائریکٹر جنرل کراچی واجد دررانی اور دیگر افسران کی نگرانی میں بھرتی ہوئے تھے جن میں بعض نے بدعنوانی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ان کو براہ راست بھرتی کیا گیا تھے۔

یاد رہے کہ قومی احتساب بیورو(نیب)کراچی کے افسران کی جانب سے تفیش کرنے کے نام پر رشوت،کمیشن اور کک بیک وصول کرنے پر گرفتار بھی ہو چکے ہیں لیکن نیب نے ایک نیا پنڈورا بکس کھلنے کے خوف کی وجہ سے معاملے کو دبا دیا تھا۔نیب کے افسران پر سہولت کاری کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے۔ملک میں نیب کا بطور ادارہ میگا مالیاتی اسکینڈل میں اربوں روپے کا انکشاف ہونے کے بعد نیب کے چیئرمین نے نوٹس لے لیا تھا لیکن بعد میں مقتدر حلقوں کے دباؤ کی  وجہ سے اسے سرد خانے کی نذر کردیا گیا ہے۔

مصدقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب کراچی اور سکھر کی تمام تر توجہ پلی بارگین میں ہے اور اصل مقدمہ کے ساتھ ریفرنس میں بدعنوانی کے ساتھ تمام ٹھوس ثبوت اور کاغذات ضائع کر کے منی لانڈرنگ کرنے میں براہ راست ملوث بتایا جارہا ہے۔،نیب کراچی کے ضمیر عباسی 2015-2017ء کی تعیناتی کے دورا  مبینہ طور پر تمام بڑے کیس میں فرنٹ مین، مڈل مین بن کر ملزمان سے ڈیل کرتے رہے ہیں۔

انہوں نے رشوت، کمیشن اور کک بیک کی مد میں کروڑں روپے وصول کیئے  ہیں۔ذرائع کے مطابق نیب کراچی کے دیگر افسران میں اسامہ لاکھانی ڈپٹی ڈائریکٹر نیب سندھ ہیڈ آفس، اومیش کمار ملانی ڈپٹی ڈائریکٹر،ان کے والد تھرپارکر سے پپلزپارٹی اقلیت کا رکن سندھ اسمبلی ہیں،جبکہ رضوان سومرو ڈائریکٹر نیب کراچی کے بھائی سابق صوبائی وزیر ایاز سومرو تھے۔

روفی شہزادہ اسٹنٹ ڈائریکٹر نے اپنے ساتھ اسلام آباد کی خاتون نیب افسر عفت شاہین جو فارنسک سیل کی انچارج ہیں ان سے ساز باز کر رکھی ہے۔عفت شاہین کے تمام اخراجات بھی ان کے ذمہ ہیں۔دونوں افسران ملی بھگت سے کروڑوں کے فوائد حاصل کرچکے ہیں۔روفی شہزادہ شکایات سیل میں تعینات افسران سے ملنے والی کمپلین پر اپنے عہدے کا بھرہور فائدہ اٹھا کر مال و متاع سے بھرپور مستفید ہو رہے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق وفاقی حکومت کے نوٹس میں سندھ نیب کے دو درجن سے زائد افسران کی کروڑوں روپے کی مبینہ کرپشن کی کہانیاں سامنے آچکی ہیں۔ لیکن نیب کراچی اور سکھر کے افسران کا مالیاتی اسکینڈل ملک کی تاریخ میں ایک باعتماد ادارے پر بدنما داغ ثابت ہوگا۔

متعلقہ تحاریر