2 صوبے 2 واقعات حکمراں جماعت کی کارکردگی پر سوال

حزب مخالف کی جماعتوں کا حکمراں جماعت کی کارکردگی پر مستقل سوالات کرنا ایک سیاسی عمل ہے لیکن اِس قسم کے واقعات حکمراں جماعت کی کارکردی پر ایک سوالیہ نشان ضرور چھوڑ جاتے ہیں۔

پاکستان میں 24 گھنٹوں کے دوران دو الگ الگ صوبوں میں پیش آنے والے بد انتظامی کے دو واقعات ہوئے ہیں جن سے عوام میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ پہلے واقعہ صوبہ خیبرپختونخواہ کے اسپتال میں آکسیجن ختم ہونے سے 6 مریض جاں بحق ہوگئے۔ جبکہ دوسرے واقعے میں صوبہ پنجاب میں کم سن گھریلو ملازمہ پر سرعام تشدد کیا گیا ہے۔

آکسیجن ختم ہونے سے 6 مریض جاں بحق

پاکستان کے صوبہ  خیبرپختونخواہ کے دارالحکومت پشاور میں خیبر ٹیچنگ اسپتال میں آکسیجن ختم ہونے سے 6 مریض چل بسے۔ اسپتال کے ترجمان کا کہنا ہے ”ہمارے پاس کرونا کے مریضوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اتوار کی شب آکسیجن کی سپلائی کم پڑ گئی تھی۔‘‘

خیبر ٹیچنگ اسپتال کو یومیہ 10 ہزار لیٹر آکسیجن درکار ہوتی ہے جو روز فراہم کی جاتی ہے۔ لیکن گزشتہ روز آکسیجن نہیں سپلائی کی گئی تھی۔

واقعے کے بعد اسپتال کو ہنگامی بینادوں پر آکسیجن کی فراہم کی گئی ہے۔ 6 اموات کے باوجود بھی 10 ہزار لیٹر کے بجائے 5 ہزار لیٹر آکسیجن فراہم کی گئی ہے۔

صوبائی وزیر صحت کی تحقیقات کی ہدایت

صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر صحت تیمور سلیم جھگڑا نے 48 گھنٹے میں واقعے کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسپتال میں آکسیجن کی فراہمی کم ہوئی اور یہ واقعہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ یا تو آکسیجن کی فراہمی میں مسئلہ تھا یا پھر غفلت ہوئی ہے۔

تحقیقاتی رپورٹ کیا کہتی ہے؟

بعدازاں خیبر ٹیچنگ اسپتال سروس لائن کے مینیجر عامر خان نے واقعے سے متعلق رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ 5 دسمبر کو رات 12 بج کر40 منٹ پر آکسیجن میں کمی سے متعلق مرکزی آپریشن تھیٹرسے کال موصول ہوئی تھی۔ وحید نامی اہلکار آکسیجن روم میں ڈیوٹی پر مامور تھا لیکن کسی نے فون ریسیو نہیں کیا۔ اس وقت آکسیجن روم میں کوئی بھی موجود نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیے

ادارہ برائے امراض قلب میں ملازمتوں کی بندر بانٹ کے ثبوت

رپورٹ کے مطابق آکسیجن پلانٹ کے سپروائزرنعمت نے بتایا کہ پورا آکسیجن ٹینک خالی ہے۔ 100 آکسیجن کے سلنڈرز موجود ہیں جو ڈی جی ہیلتھ نے فراہم کیے تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ان سلینڈرز کواسپتال کے تمام ملازمین نے آئسولیشن وارڈ پہنچایا تھا۔ کچھ مریضوں کوان کے رشتہ داروں نے دوسرے اسپتال منتقل کردیا تھا۔ جبکہ 14 مریضوں کو ایمرجنسی ڈپارٹمنٹ منتقل کیا گیا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ آکسیجن کی ترسیل والی گاڑی رات 3 بج کر 15 منٹ پر اسپتال پہنچی تھی۔

پنجاب میں گھریلو ملازمہ پر تشدد

دوسری جانب پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہرفیصل آباد میں سنیچرکے روزکم سن گھریلو ملازمہ پرتشدد کی ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ وزیراعلیٰ اور آئی جی پنجاب نے واقعے کا نوٹس لیا تھا۔ جس کے بعد تھانہ مدینہ ٹاؤن پولیس نے چائلڈ پروٹیکشن آفیسرثمینہ نادر کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا تھا۔ واقعے میں ملوث ایک ملزم کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق پولیس کا کہنا تھا کہ رانا منیر کے بچوں کے ساتھ کم سن گھریلو ملازمہ کی لڑائی ہوئی تھی جس کے بعد بچی پرتشدد کیا گیا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پنجاب پولیس نے ملزم رعنا کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے۔

سٹی پولیس افسر سہیل چوہدری کا کہنا تھا کہ ملزم رعنا منیر کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ جبکہ متاثرہ بچی کو اس کے والدین کے حوالے کردیا گیا۔ تازہ اطلاعات کے مطابق ویڈیو میں تشدد کرنے والی صدف نامی خاتون کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔

بعدازاں ملازمہ پرسرعام تشدد کرنے والے ملزم کو ضمانت پر رہائی مل گئی ہے۔ عدالت نے ملزم کو ایک لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔

حزب مخالف کی جماعتیں خصوصا مسلم لیگ ن پاکستان کی حکمراں جماعت تحریک انصاف کی کارکردگی پر اعتراضات کرتی رہی ہے۔ حکمراں جماعت کی کارکردگی پرمستقل سوالات کرنا ایک سیاسی عمل ہے لیکن اِس قسم کے واقعات حکمراں جماعت کی کارکردی پر ایک سوالیہ نشان ضرور چھوڑ جاتے ہیں۔

اب یہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے لیے ایک چیلینج ہے کہ وہ اِس قسم کے واقعات کی روک تھام اور تحقیقات میں کتنی مستعدی دکھاتی ہے۔ تاکہ مخالفین کے اعتراضات دور کیے جا سکیں اور عوام کے غم و غصے کو کم کیا جا سکے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان میں جنسی تشدد کے کیسز سے متعلق اعدادوشمار

متعلقہ تحاریر