اسلام آبادہائیکورٹ نے ‘ن لیگ’ کی امیدوں پر پانی پھیر دیا
جسٹس اطہرمن اللّٰہ نے دو ماہ کے دوران منتخب نمائندے کا حلف لازمی قرار دینے کے صدارتی آرڈیننس کے خلاف مسلم لیگ ن کی درخواست پر سماعت کی
عوامی نمائندوں کو ساٹھ روز کے دوران حلف اٹھانے کو لازمی قرار دینے کے خلاف مسلم لیگ نواز کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ یہ اختیارات عدالت کو نہیں پارلیمنٹ کو استعمال کرنے چاہئیں۔
یکم اکتوبر بروز جمعہ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہرمن اللّٰہ نے دو ماہ کے دوران منتخب نمائندے کا حلف لازمی قرار دینے کے صدارتی آرڈیننس کے خلاف مسلم لیگ ن کی درخواست پر سماعت کی۔
یہ بھی پڑھیے
سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی روک تھام کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ سرگرم
چیف جسٹس اطہرمن اللّٰہ نے سماعت کے دوران استفسار کیا، کیا آپ چاہتے ہیں کہ عوام نمائندوں کے ذریعے پارلیمنٹ میں نمائندگی سے محروم رہے ؟ جس پر نون لیگ کے وکیل نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں ایگزیکٹو پارلیمنٹ میں خلاف قانون مداخلت سے باز رہاجائے۔
عدالت نے کہا کہ کوئی منتخب ہونے کے بعد حلف نہیں لیتا تو عوام اس سے متاثر ہوتے ہیں، اپوزیشن کے پاس سینیٹ میں اکثریت موجود ہے تو وہ اسی فورم پر جائے، جب اپوزیشن کے پاس اکثریت موجود ہے توپارلیمنٹ میں جائے، یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ سینیٹ میں اپوزیشن کی اکثریت موجودہے۔اگر کوئی سیاسی جماعت متاثرہ ہو تو پارلیمنٹ میں آرڈیننس مسترد کر سکتی ہے، عدالت کو اس قسم کے سیاسی معاملے میں کیوں پڑنا چاہیئے؟
اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کیا مسلم لیگ نواز یہ کہہ رہی ہے ہماری اکثریت سینیٹ میں موجود ہے لیکن ہم اس کو استعمال نہیں کررہے؟۔ چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ عدالت پارلیمنٹ کو تجویز کر رہی ہے کہ عدالت کو نہیں پارلیمنٹ کو اپنے اختیارات استعمال کرنے چاہئیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے 60 روز میں منتخب عوامی نمائندے کا حلف لازمی قرار دینے کے خلاف مسلم لیگ نون کی درخواست چیف جسٹس نے ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کردی۔