زر مبادلہ کی شرح کے بجائے برآمدات پر توجہ دیں، سمیع اللہ طارق

مالیاتی تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ زر مبادلہ کی تبدیل ہوتی شرح کسی بھی ملک کو تقابلی فائدہ پہنچاتی ہے اور برآمدات میں اضافہ جبکہ درآمدات کو روک دیتی ہے۔

مالیاتی شعبے سے وابستہ ایک تجزیہ نگار سمیع اللہ طارق نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر لکھا کہ ناجانے کیوں ہمارا ملک زر مبادلہ کی شرح میں اتنی دلچسپی کیوں رکھتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اصل مسئلہ درآمدات اور برآمدات میں فرق اور اس تجارتی خسارے کے پسِ پردہ عوامل ہیں۔

سمیع اللہ طارق نے یہ بات آج کل ملکی معیشت اور روپے کی قدر میں کمی پر جاری بحث کے تناظر میں کہی۔ پاکستان میں ڈالر اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔ ایسے میں حکومت کی معاشی پالیسیوں پر شدید تنقید کی جارہی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

افغانستان کی بدلتی صورتحال کے پاکستانی معیشت پر برے اثرات

ٹویوٹا گاڑیوں کی ریکارڈ فروخت معیشت کی ترقی کی ضامن؟

سمیع اللہ طارق نے مزید لکھا کہ جدید معیشتیں اشاروں پر کام کرتی ہیں، کمزور زر مبادلہ کی شرح درآمد کنندگان کو منفی اشارہ دیتی ہے جبکہ برآمد کنندگان کو مثبت، اس کے ذریعے برآمد کنندگان اپنے کاروبار کو وسیع کرنے کا طویل مدتی منصوبہ بنا سکتے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ زر مبادلہ کی تبدیل ہوتی شرح کسی بھی ملک کو تقابلی فائدہ پہنچاتی ہے اور برآمدات میں اضافہ جبکہ درآمدات کو روک دیتی ہے، اس طرح برآمدات اور درآمدات کے درمیان عدم توازن بھی ختم ہوجاتا ہے۔

یہ تمام نکات پاکستانی معیشت اور کرنسی کو سمجھنے کے لیے نہایت اہم ہیں۔ سمیع اللہ طارق نے بہت بنیادی باتیں بتائی ہیں جن کو جانے بغیر ہمارے یہاں غیرمتعلقہ شعبے کے افراد بھی کمزور معیشت، روپے کی گرتی قدر اور دیگر معاشی معاملات پر گفتگو شروع کردیتے ہیں۔

متعلقہ تحاریر