زینب الرٹ بل منظور، بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کا سلسلہ تھم نہ سکا
پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق صرف پنجاب میں 2009 سے لے کر سنہ 2019 کے دوران بچوں کے اغوا اور جنسی زیادتی کے تقریباً 18 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے۔
قومی اسمبلی سے زینب الرٹ بل کی منظوری کے باوجود جنسی درندوں کی جانب سے بچوں سے جنسی زیادتی اور ان کی نازیبا ویڈیو بنانے (چائلڈ پورنوگرافی) کے واقعات کا سلسلہ جاری ہے۔
ملک بھر میں گزشتہ برس بچوں او بچیوں سے بدسلوکی (جنسی زیادتی) اور ان کی نازیبا ویڈیو بنانے کے 50 واقعات رپورٹ ہوئے تاہم ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ کے حکام کا کہنا ہے کہ رپورٹ نہ ہونے والے کیسز کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔
یہ بھی پڑھیے
ناظم جوکھیو قتل کیس میں نامکمل چالان پیش کرنے پر حلیم عادل شیخ برہم
82 سالہ شہری سے ایف بی آر کی زیادتی، معافی صدر عارف علوی نے مانگی
ایف آئی اے نے 53ملزمان گرفتار کرلئے۔
ایف آئی اے سائبر کرائمز ذرائع سے حاصل ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق ایف آئی اے نے2021 کے دوران نازیبا ویڈیوز بنانے والے 53 افراد کو گرفتار کیا۔
صوبہ سندھ میں 9 بچوں سے زیادتی کے بعد ان کی نازیبا ویڈیوز بنائی گئیں جبکہ صوبہ پنجاب میں چائلڈ پورنوگرافی کے 26 کیسز رپورٹ ہوئے۔خیبرپختونخوا میں چائلڈ پورنوگرافی کے 7 کیسز درج کروائے گئے۔ جبکہ وفاق اور بلوچستان میں بچوں کی نازیبا وڈیوز بنانے کے کل آٹھ کیسز رپورٹ ہوئے۔
نازیبا ویڈیوز بھی برآمد کرلی گئیں۔
گرفتار کئے گئےملزمان سے نازیبا ویڈیوز بھی برآمد کی گئیں۔ ایف آئی اے سائبر کرائمز حکام کے مطابق ملزمان ویڈیوز ڈارک ویب پراپ لوڈ کرتے تھے۔ایف آئی اے سائبر کرائمز حکام کے مطابق رپورٹ نہ ہونےوالے کیسز کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔
سزا پانے والے مجرموں کی شرح ایک فیصد سے بھی کم۔
پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق صرف پنجاب میں 2009 سے لے کر سنہ 2019 کے دوران بچوں کے اغوا اور جنسی زیادتی کے تقریباً 18 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے تاہم سزا پانے والوں کی شرح ایک فیصد سے بھی کم رہی۔
بچی زینب سے پیش آنے والے واقعے معاشرے کو ہلاکر رکھ دیا
جنوری 2018 میں قصور میں بچی زینب کے ریپ اور قتل کا سانحہ پیش آیا جس پر ملک بھر میں عوام نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔
قصور کی آٹھ برس کی زینب کے اغوا، عصمت دری اور قتل کے واقعے کے 14 دن بعد 24 برس کے مجرم عمران علی کو پکڑ لیا گیا تھا۔ جرم ثابت ہونے پر مجرم کو انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے چار بار سزائے موت، ایک بار عمر قید اور سات برس قید کی سزا سنائی اور 17 اکتوبر 2018 کو اسے پھانسی دے دی گئی۔
زينب الرٹ بل
وزارت انسانی حقوق نے 2019میں مسودہ پیش کیا جس میں بچوں کے خلاف جرائم کے واقعات کی روک تھام اور مقدمات پر جلد از جلد کارروائی اورسزا کے حوالے سے نکات شامل تھے۔
اس میں پولیس کو پابند کیا گیا کہ بچے کی گمشدگی یا اغوا کے واقعے کے رپورٹ کے اندراج کے دو گھنٹے کے اندر کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
اگر کوئی پولیس افسر قانون پر عملدرآمد نہیں کرتا تو یہ اقدام قابلِ سزا جرم ہوگا۔
جنوری 2020 میں قصور واقعے کے دو سال بعد زینب الرٹ بل قومی اسمبلی نےمنظور کر لیا تھا اور سینیٹ نے منظور کرلیا تھا۔