اسٹیٹ بینک نے نئی مالیاتی پالیسی کا اعلان کردیا ، شرح سود میں 2.5 فیصد اضافہ
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ترجمان کے مطابق شرح سود بڑھانے کا فیصلہ مانیٹری پالیسی کمیٹی کے ہنگامی اجلاس میں کیا گیا ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ہنگامی بنیادوں پر نئی مالیاتی پالیسی جاری کردی ہے ۔ نئی مالیاتی پالیسی کے تحت شرح سود میں 250 بیسز پوائنٹس کا اضافہ کیا گیا ہے جس کے تحت شرح سود 12.25 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
اسٹیٹ بینک مہنگائی اور بیرونی کھاتے پر دباؤ کو کم کرنے کے لیے مزید اقدامات کررہا ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق مہنگائی میں مزید اضافے کی وجہ سے بیرونی استحکام کے خطرات مزید بڑھ گئے ہیں، جبکہ عالمی سطح پر معاشی حالات مزید خراب ہونے کا اندیشہ پیدا ہو گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کا سب سے زیادہ قرضے لینے کا ریکارڈ
ٹویوٹا نے رواں سال 7 ہزار332 گاڑیاں بیچ کر اپنا ہی ریکارڈ توڑ دیا
مرکزی بینک نے شرح سود میں ہنگامی بنیاد پر ڈھائی فیصد اضافہ کردیا ہے اور بنیادی شرح سود 12.25 فیصد ہوگئی ہے جو اس سے پہلے 9.75 فیصد تھی۔
غیر ملکی ادائیگیوں کے زور سے نمٹنے کے لیے اسٹیٹ بینک ایکسپورٹرز کے لیے سستے قرضوں کی اسکیم ایکسپورٹ ریفائنانس کی شرح بھی بڑھانے کی تیاری کررہا ہے اور امپورٹڈ مصنوعات کے لیے کیش مارجن کی شرط کا دائرہ کار مزید وسیع کرنے کا بھی جلد اعلان کرنے جارہا ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اگلے 2 ماہ کے لیے مانیٹری پالیسی کا اعلان کردیا ہے اور شرح سود 250 بیسس پوائنٹس اضافے کے بعد (ڈھائی فیصد) بڑھا کر 12.25 فیصد کردیا ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق زری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) کے پچھلے اجلاس کے بعد سے مہنگائی کا منظرنامہ مزید بگڑ گیا ہے اور بیرونی استحکام کو درپیش خطرات بڑھ گئے ہیں۔
اسٹیٹ بینک کی مانیٹری کمیٹی کا موقف ہے کہ بیرونی لحاظ سے مستقبل کی منڈیوں سے امکان ظاہر ہوتا ہے کہ اجناس کی عالمی قیمتیں بشمول تیل طویل تر عرصے تک بلند رہیں گی اور امکان ہے کہ فیڈرل ریزرو اس سے زیادہ تیزی سے شرح سود میں اضافہ کرے جتنا پہلے سمجھا گیا تھا، جس سے عالمی مالی حالات کے زیادہ سخت ہونے کا اندیشہ ہے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق برآمدات اور ترسیلات زر کی بنا پر فروری میں جاری کھاتے کا خسارہ سکڑ کر 0.5 ارب ڈالر رہ گیا جو اس مالی سال کی پست ترین سطح ہے، تاہم ملک میں بڑھی ہوئی سیاسی غیریقینی کیفیت نے پچھلے ایم پی سی اجلاس کے بعد سے روپے کی قدر میں 5 فیصد کمی میں کردار ادا کیا۔
اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ ان حالات کے نتیجے میں اوسط مہنگائی کی پیش گوئیوں میں اضافہ کردیا گیا ہے اور پیش گوئی کے مطابق اوسط مہنگائی مالی سال 2022 میں 11 فیصد سے تھوڑی اوپر ہوگی اور مالی سال 2023 میں معتدل ہوجائے گی۔
جاری کھاتے کا خسارہ ابھی تک متوقع طور پر مالی سال 2022 میں جی ڈی پی کے لگ بھگ 4 فیصد رہنے کا امکان ہے۔
ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ ملک میں غیر یقینی سیاسی صورت حال مسلسل معیشت کو نقصان پہنچا رہی ہے اور ایسے میں مانیٹری پالیسی کا اعلان حالات کی سنگینی کو ظاہر کررہی ہے۔