پاکستانی جامعات میں جعلی تحقیقی مقالوں کی بھرمار ملکی بدنامی کا سبب

خیالات، نظریات، تصورات اور ایجادات کا فقدان ہے جس کے باعث  پاکستان کی جامعات میں جعلی تحقیقاتی مقابلوں کی بھرمار ہے

کسی بھی معاشرے کی تعمیر و ترقی میں  تعلیم کا کردار بنیادی ہے ،تعلیم کا آغاز اس نظریہ سے ہوتا ہے جس میں معاشرہ انسانی ضرورتات  میں سرفہرست ہو۔اگر نظریات پسماندہ اور سطحی ہوں گے تو پھر اس سے نتائج بھی  پسماندہ اور سطحی ہوں گے۔

ایک بےمثال معاشرہ چار اہم نظریات سے مل  کر پروان چڑھتا ہے جس میں برداشت، اصلاح، سچ اور تنقید برائے تنقید کا عنصر نا ہو،  جبکہ شدت پسندی، لبرل ازم یا جدت پسندی  کی غلط تشریح سے جو معاشرہ پروان چڑھتا ہے وہ معاشرہ دنیا میں قابل رحم ہونے کے ساتھ ساتھ قابل نفرت بن جاتا ہے۔

جدید دور میں  معاشرے کی  بنیاد علم کے پھیلاؤ کا مرکز یونیورسٹیز اور دیگر تعلیمی اداروں پر ہے ان یونیورسٹیز کی سرپرستی براہ راست  ریاست کرتی ہے، پاکستان اپنے قیام سے اب تک سات دہائیاں دیکھ چکا ہے اور ان سات دہائیوں سے علم کے بحران سے گزر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جامعہ کراچی کے پروفیسر کو ہراسگی کیس میں سزا

جامعہ کراچی کے ایم فل پروگرام میں بے ضابطگی کا انکشاف

پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں طلباء، اسکالرز اور اساتذہ کی ذہنی نشوونما جس طرح کے تعلیمی ماحول میں ہو رہی ہے اس سے صرف چربہ ساز اسکالرز ہی پیدا ہورہے ہیں جن کا مقصد صرف ڈگری حاصل کرنا ہے۔پاکستان میں ہر سال سینکڑوں پی ایچ ڈی اسکالرز ڈگریاں لے کر تعلیمی شعبے سے وابستہ ہو رہے ہیں لیکن پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے باوجود نئے خیالات، تصورات، نظریات، ایجادات کا فقدان ہے جس کے باعث  پاکستان کی جامعات میں جعلی تحقیقاتی مقابلوں کی بھرمار ہے۔

ملک کی سرکاری و نیم سرکاری یونیورسٹیرز میں اُردو، فارسی، عربی، اسلامیات، اور سماجی علوم کے دیگر شعبوں میں جتنی بھی تحقیق ہو رہی ہے، اس میں علم کی چوری یا پھر چربہ سازی کی بے شمار مثالیں موجود ہیں، انگریز ی میں جعلی تحقیق کی  روک تھام کیلئے سافٹ ویئر ایجاد کرلیئے ہیں  لیکن اردو ، عربی  اور فارسی  میں ہونے والی تحقیق میں چربہ سازی کی روک تھام کیلئے کوئی  مکینزم موجود نہیں ہے اُردو زبان میں پہلے سے شائع شدہ مواد کو چوری کر کے اپنی تحقیق کا بغیر کسی حوالے کے حصہ بنانا معمول کی بات ہے۔

گذشتہ چند ماہ قبل تحقیقی مقالوں کی چوری کی پے  درپے شکایات پر قائمہ کمیٹی میں5جامعات کے وائس چانسلرز کو طلب  کیا گیا ، سینٹ کی قائمہ کمیٹی وفاقی تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس کنوینر سینیٹر رانا مقبول کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں ملک کی پانچ  بڑی یونیورسٹیز  قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد، پشاور یونیورسٹی، کراچی یونیورسٹییونیورسٹی آف پنجاب لاہور اور یونیورسٹی آف بلوچستان کوئٹہ کے تحقیقی مقالوں کا جائزہ لینے ، منظوری اور پبلشنگ کے طریقہ کار کے معاملات کا جائزہ لیا گیا۔

کنوینر سینیٹر رانا مقبول نے کہا  تحقیقی مقالوں  کے مواد کی چوری ایک انتہائی اہم اور سنجیدہ مسئلہ ہے، تحقیقی مقالوں کی چوری اور غلط استعمال کے تدارک کے لئے متعلقہ اداروں کی طرف سے ہر ممکن اقدام یقینی بنایا جائے گا، تحقیقی مقالوں کے مواد کی چوری کے حوالے سے نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی اداروں سے بھی شکایات وصول ہو رہی ہیں جو ملکی بدنامی کا سبب ہے ، انھوں نے تحقیقی  مقالوں میں چربہ سازی کی روک تھام اور مستقبل کیلئے لائحہ عمل اختیار کرنے کیلئے تجاویز طلب کی جس پر سختی سے عمل درآمد کی یقین دہانی بھی کرائی گئی ۔

متعلقہ تحاریر