فوٹو گرافرز اور کیمرا مین بھی صحافیوں میں شمار، اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکم دے دیا
جرنلسٹس کی تعریف میں فوٹو گرافرز ، کیمرا مین ، پروڈیوسرز اور ایڈیٹرز بھی شامل ہیں۔

پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنل ایکٹ کے خلاف درخواست صحافی کی تعریف اور صحافیوں پر ضابطہ فوجداری سمیت دیگر قوانین کے اطلاق کے حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست کی سماعت، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ پہلے ہی پیکا ایکٹ آزادی اظہار رائے کیخلاف استعمال ہو رہا ہے، پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنل ایکٹ کی سیکشن 6 بادی النظر میں آئین میں درج بنیادی حقوق کیخلاف ہے۔
گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے پی ایف یو جے کے سیکرٹری جنرل ناصر زیدی کی درخواست پر سماعت کی ،چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنل ایکٹ کی سیکشن 6 بادی النظر میں آئین میں درج بنیادی حقوق کیخلاف ہے۔ جرنلسٹس کی تعریف میں فوٹو گرافرز ، کیمرا مین ، پروڈیوسرز اور ایڈیٹرز بھی شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
اسلام آباد ہائیکورٹ کا پی ٹی وی کے 19 کروڑ وصول کرنے کا حکم
ثمن رفعت امتیاز اسلام آباد ہائیکورٹ کی دوسری خاتون جج ہوں گی
فاضل چیف جسٹس نے وزارت اطلاعات اور وزارت انسانی حقوق کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ایک ماہ میں جواب طلب کرتے ہوئے کہا کہ اس عدالت نے حکم دے رکھا ہے کہ ریاست اپنے عمل سے ثابت کرے کہ آزادی اظہار رائے پر کوئی قدغن نہیں۔
عدالت کا مزید کہنا تھا کہ وزارت انسانی حقوق عدالت کو مطمئن کرے گی کہ آرٹیکل 19 اور آرٹیکل 19 اے کے متصادم نہیں، عدالت جو چیزغیر ضروری ہے اس کو آپ ہٹا بھی سکتے ہیں ضروری نہیں کورٹ اس میں مداخلت کرے، عدالت درخواست گزار اور اٹارنی جنرل کے ساتھ بیٹھ کر آرٹیکل 19 اور 19 اے کے تناظر میں اس کو دیکھیں۔
عدالت کے ریمارکس پر اپنے مؤقف میں نمائندہ وزارت انسانی حقوق نے کہا کہ درخواست گزار کے خدشات کو دیکھ کر اس کا حل نکالیں گے ، ضرورت پڑی تو پارلیمنٹ میں ترمیم تجویز کی جائے گی۔ عدالت کی وزارت اطلاعات اور وزارت انسانی حقوق نوٹس کو جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی کیس کی مزید سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی