ٹرانس جینڈر کرن دانش معاشرے کے منفی رویوں سے نالاں

ہمارے معاشرے میں ٹرانس جینڈر کی پہچان ایک بھکاری یا پھر سیکس ورکر کے طور پر رہ گئی ہے جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے، کوئی بھی قوم یا معاشرہ تعلیم کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا ہے ، ہمارے معاشرے میں ٹرانس جینڈرز  طبقے کو مظلوم افراد کے طور پر پیش کیا جاتا ہےجبکہ وہ خود سوسائٹی کی جانب سے مثبت رویے کے متلاشی ہوتے ہیں۔

ٹرانس جینڈرز یا خواجہ سرا ، جن سے ہمارے معاشرے کے لوگ ملنے جلنے یا بات کرنے سے کتراتے ہیں، ان کی زندگی کی وہ روشن پہلو جو معاشرے سے مخفی ہیں نیوز 360 کی نامہ نگار ماہم زہرا نے اجاگر کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ضلع قصور کے قدیمی محلے کی فارمی مچھلی ذائقے میں اپنی پہچان آپ

ہمارا نظام انصاف پروسیجر کا پابند ہے، قانون دان جبران ناصر

ماہم زہرا نے ٹرانس جینڈر کرن دانش اور ان کے گروپ سے ملاقات کی ہے۔ اپنے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کرن دانش کا کہنا تھا کہ اسکول کی زندگی سے ہمیں مشکلات کا سامنا کر پڑ جاتا ہے ، کلاس میں ہم جیسے بچوں کو دوسرے بچوں سے بالکل الگ تھلگ رکھا جاتا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ اسکول میں ہم اپنی دوست لڑکیوں کو بناتے ہیں مگر جب وہ شادی کرکے دور چلی جاتی ہیں تو پھر ہم اپنے جیسوں کو تلاش کرتے ہیں، کیونکہ اس کے ساتھ ہم اپنے دل کی بات کھل کرسکتے ہیں۔

کرن دانش کا بتانا تھا کہ ہم لوگ محنت کرنا چاہتے ہیں ، ہمارا بھی دل چاہتا ہے کہ ہم کچھ اچھا کریں۔ انہوں نے بتایا کہ میں 1996 میں کراچی آئی تھی شروع میں اسٹیج پر پرفارم کرنا شروع کیا ، دو سال بعد مختلف پروگرامز میں جاکر پرفارمز کرنا شروع کیا۔

کرن دانش بتایا کہ جب میرے گرو نے مجھے اپنا شاگرد خاص بنایا تو پھر میں ہر پروگرام میں ان کے ساتھ جاتی تھی، اب میں خود گرو ہوں اور چند خواجہ سرا میرے چیلے ہیں۔

نیوز 360 کی نامہ نگار ماہم زہرا کے ایک سوال پر کرن دانش کی شاگرد خاص کشف نے جواب دیا کہ بہن بھائیوں کی وجہ سے ہمیں بہت سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میرے بھائی جب مجھ پر تنقید کرتے ہیں تو ماں میرا ساتھ دیتی ہیں، گرو کی دعاؤں سے میں اپنے گھر کی واحد کفیل ہوں کیونکہ میرے بھائی تو نشے پر لگے ہوئے ہیں۔

ماہم زہرا سے گفتگو کرتے ہوئے کرن دانش اور ان کے چیلوں نے اپنے مزید کیا کیا تجربات شیئر کیے دیکھتے ہیں مزید اس انٹرویو میں

متعلقہ تحاریر