نواز شریف کو سفارتی پاسپورٹ جاری کرنے سے روکنے کی درخواست خارج
عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح کیا ہے کہ اشتہاری اور مفرور شخص کے حوالے سے قانون بڑا واضح ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو سفارتی پاسپورٹ جاری کرنے سے روکنے کےلیے درخواست کو مسترد کردیا ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کی جس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو ڈپلومیٹک پاسپورٹ جاری کرنے سے روکنے کی استدعا کی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیے
پاکستان تحریک انصاف معاشرے کے ہر طبقے کی آواز بن گئی
بلی تھیلے سے باہر آگئی، زرداری نے ساراحکومتی بوجھ نون لیگ پر ڈال دیا
درخواست میں سیکرٹری داخلہ، ڈپٹی سیکرٹری، سیکرٹری خارجہ، ڈی جی ایڈمنسٹریشن خارجہ امور، ڈی جی امیگریشن پاسپورٹ وزارت، وزیر اعظم پاکستان کے پرنسپل سیکرٹری، سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈیویژن، ڈی جی ایف آئی اے، آئی جی پولیس آئی جی پولیس، وزارت خارجہ کے ذریعے لندن میں پاکستان کے ہائی کمشنر اور نواز شریف کو فریق بنایا گیاتھا۔درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ سفارتی پاسپورٹ ریاست کے سربراہ، سفارت کاروں، اعلیٰ ترین عہدیداروں اور معززین کو جاری کیے جاتے ہیں، ایسے پاسپورٹ کے حامل افراد کو کچھ استثنیٰ اور مراعات حاصل ہوتی ہیں، جیسا کہ عالمی برادری نے سفارتی تعلقات پر ویانا کنونشن 1961 کے ذریعے اتفاق کیا ہے، وکیل کا درخواست میں کہنا تھا کہ ملک کی معزز اعلیٰ عدالتوں نے یہ قرار دیا ہے کہ اگرچہ قانون سے مفرور اور عدالت سے مفرور افراد کو عدالتوں کے سامنے اپنا دفاع کرنے کا حق حاصل ہے،لیکن وہ کچھ حقوق کھو دیتے ہیں اور ان کے ساتھ عام شہری جیسا سلوک نہیں کیا جا سکتا، پاسپورٹ رولز 2021 کے مطابق سفارتی پاسپورٹ ریاستی اہلکاروں کے ایک مخصوص طبقے کو جاری کیے جاتے ہیں، اس طرح کے دفاتر رکھنا چھوڑ دیتے ہیں، تو انہیں اپنے دفاتر کا انعقاد ختم کرنے کے 30 دنوں کے اندر سفارتی پاسپورٹ حوالے کرنا ضروری ہے، وکیل نے موقف اختیار کیا ہے کہ وزارت خارجہ کے علاوہ کوئی بھی اتھارٹی کسی بھی صورت میں سفارتی پاسپورٹ جاری نہیں کرے گی، تمام صورتوں میں ڈی جی انتظامیہ وزارت خارجہ کے دستخط ہوں گے،ڈپلومیٹک پاسپورٹ رولز پاسپورٹ اینڈ ویزا مینول 2006 کے پیرا 45 کی شق ڈی میں فراہم کردہ طریقہ کار کی پیروی نہیں کی گئی ہے، رولز سے مستثنیٰ یا بائی پاس نہیں کیا جا سکتا اور محض اس بنیاد پر نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ نواز شریف وزیر اعظم شہباز شریف کا بھائی ہے،کسی مجرم کو سفارتی پاسپورٹ کا اجراء کسی مجرم کو عزت، ریاستی پروٹوکول اور وقار دینے کے مترادف ہے۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ جرم عدالت سے مفرور ہے تو یہ ملک کے پورے عدالتی نظام کی بدنامی کا باعث بنتا ہے، کسی مجرم کو ڈپلومیٹک پاسپورٹ کا اجراء آئین کی روح اور بنیادی حقوق کے خلاف ہے، جس کے تحت ہر شہری کو اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ ان کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے گا،عدالت سے مفرور افراد کو ایسی منافع بخش سفری دستاویز مل جاتی ہیں تو زندگی بھر نظام کا مذاق بن جائے گا۔مجرم نواز شریف پہلے ہی مفرور اور اشتہاری بن کر اس معزز عدالت کے ساتھ چھپ چھپا کر کھیل چکے ہیں، مجرم نواز شریف بھاری تحریری ضمانتیں دینے کے بعد ملک سے فرار ہو گیا تھا، وکیل کا کہنا تھا کہ ضمانتی مچلکے نواز شریف کے بھائی شہباز شریف نے دیئے جو حال ہی میں ملک کے وزیر اعظم بنے ہیں، درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ اعلیٰ عدالتوں نے قرار دیا ہے کہ قانون سے مفرور وہ تمام حقوق کھو دیتا ہے جن کا ایک عام آدمی طریقہ کار یا بنیادی قوانین کے تحت حقدار تھا، کسی مجرم کے لئے سفارتی پاسپورٹ جاری کرنا عام پاسپورٹ سے کہیں زیادہ مراعات اور استثنیٰ حاصل ہو، ایک سزا یافتہ مجرم کو سفارتی پاسپورٹ جاری کرنا جس نے عوامی ریلیوں میں ملک کے حاضر سروس فوجی اور عدالتی اہلکاروں کے خلاف توہین آمیز کلمات ادا کیے، پاکستان آرمی اور عدلیہ کے سب سے معزز اداروں کی بے عزتی بے نواز شریف نےکی ہے، جرم نواز شریف کی ریمارکس پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ابھی تک کارروائی کرنا باقی ہے۔
آئین اور اعلیٰ عدالتوں کے وضع کردہ قانون کے مطابق مجرم کے لیے قانون کے سامنے ہتھیار ڈالنا لازمی ہے۔سزا یافتہ اور عدالت سے مفرور نواز شریف کو سفارتی پاسپورٹ جاری نہیں کیا جائے۔
درخواست کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ درخواست کے ساتھ کوئی ٹھوس مواد فراہم نہیں کیا گیا۔ اخباری ترشوں کی بنا پر کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے۔عدالت عظمی کا کہنا تھا کہ امید ہے کہ حکومت اس حوالے سے سپریم کورٹ کے طے کردہ اصولوں کے خلاف نہیں جائے گی۔
سزایافتہ اشتہاری کے لیے لازم ہے کہ وہ جیل جاکر سرنڈر کرے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پٹیشنر وکیل پر پانچ ہزار روپے جرمانہ عائد کردیا اور درخواست غیر ضروری قرار دیتے ہوئے خارج کردی۔