پی پی سرکار میں شاہ زیب قتل کیس کا مرکزی مجرم شاہ رخ جتوئی شاہانہ زندگی گزارنے لگا

ذرائع محکمہ داخلہ سندھ کے مطابق شاہ رخ جتوئی کو اسپتال منتقل کرنے کے حوالے سے کوئی احکامات جاری نہیں کیے۔

پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کی سرکار میں شاہ زیب قتل کیس کے مرکزی مجرم شاہ رخ جتوئی کو سینٹرل جیل سے گزری کے اسپتال میں منتقل کیے جانے کا انکشاف ہوا۔ محکمہ داخلہ سندھ کا شاہ رخ جتوئی کو اسپتال منتقل کرنے سے متعلق کوئی حکم جاری نہیں کیا جبکہ محکمہ صحت کے ذرائع کا کہنا ہے میڈیکل بورڈ نے کسی کو اسپتال منتقل کرنےکی سفارش نہیں کی ہے۔

تفصیلات کے مطابق 2012 میں کراچی میں شاہ زیب کو قتل کرنے والے مرکزی مجرم شاہ رخ جتوئی کے حوالے سے اہم انکشافات سامنے آئے ہیں۔

میڈیا ذرائع کے مطابق شاہ رخ جتوئی گزشتہ کئی ماہ سے جیل کے بجائے پرائیویٹ اسپتال میں ہیں۔ ذرائع کے مطابق شاہ رخ جتوئی سینٹرل جیل کی بجائے گزری اسپتال میں ہیں۔ وہ اسپتال کی سب سے اوپر والی منزل پر رہائش پذیر ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ شاہ رخ جتوئی کے خاندان والوں نے سارے اسپتال کو کرائے پر لے رکھا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

اربوں روپے کا فراڈ، ایف آئی اے کا کرپٹو کرنسی ایکسچینج کو نوٹس

کسٹم حکام کی طور خم بارڈر پر کارروائی، 1 بلین کی منشیات برآمد

ذرائع کا کہنا ہے کہ جیل ترمیمی ایکٹ 2019 کے بعد قیدیوں کو طبی سہولت کے لیے اسپتال منتقل کرنے کا اختیار آئی جی جیل خانہ جات کا اختیار ہے۔ محکمہ صحت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ شاہ رخ جتوئی کو میڈیکل بورڈ کی سفارش کے بغیر ہی پرائیویٹ اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ جیل سپریٹنڈنٹ ، جیل ڈاکٹر کی سفارش پر قیدی کو اسپتال منتقل کی منظوری آئی جی جیل خانہ جات سے حاصل کرے گا۔

ذرائع محکمہ داخلہ سندھ کے مطابق شاہ رخ جتوئی کو اسپتال منتقل کرنے کے حوالے سے کوئی احکامات جاری نہیں کیے۔

محکمہ صحت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ میڈیکل بورڈ کسی بھی قیدی کو نجی اسپتال منتقل کرنےکی سفارش کرسکتا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ محکمہ صحت کو جیل یا محکمہ داخلہ کی جانب سے کوئی خط نہیں ملا ہے ۔

محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ قیدی کی زندگی خطرے میں ہو تو اسے کسی بھی نجی اسپتال میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ کسی بھی قیدی کو اسپتال منتقل کرنے محکمہ داخلہ کو محکمہ صحت کو خط لکھنا پڑتا ہے۔

محکمہ صحت کے ذرائع کے مطابق محکمہ داخلہ قیدی کےلیے میڈیکل بورڈ بنانے کی درخواست کرتا ہے۔

واضح رہے کہ 25 دسمبر 2012 کو مقتول شاہ زیب خان کی بہن کے ساتھ شاہ رخ جتوئی اور اس کے دوست غلام مرتضیٰ لاشاری کی جانب سے بدسلوکی کی گئی جس پر شاہ زیب مشتعل ہو کر ملزمان سے لڑ پڑا، موقع کے وقت معاملے کو رفع دفع کردیا گیا تاہم شاہ رخ جتوئی نے دوستوں کے ساتھ شاہ زیب کی گاڑی پر فائرنگ کر کے اسے قتل کردیا تھا

واقعے کے بعدشاہ رخ دبئی فرار ہوگیا، تفتیش سست روی کا شکار رہی، بالآخرمجرم گرفتار ہوا اور مقدمہ انسداد دہشت گردی عدالت میں چلا۔

7جون 2013 کو قتل کا جرم ثابت ہونے پر شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کو سزائے موت جبکہ سجاد تالپور اور غلام مرتضیٰ لاشاری کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

بعد ازاں سندھ ہائی کورٹ نے شاہ زیب قتل کیس میں شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا جبکہ دوملزمان سجاد تالپوراورغلام مرتضیٰ کی عمر قید کی سزا برقرار رکھی تھی۔

متعلقہ تحاریر