فیض محمد دریائی میں قیامت کا منظر، وزیراعلیٰ سندھ صرف اعلانات تک محدود

ایک کتے کی موت پر واویلا مچانے والی ہیومن رائٹس کی تنظیموں نے 9 افراد کی موت اور 145 گھروں کے جل کر خاکستر ہونے پر چپ کا روزہ رکھ لیا ہے۔

دادو کی تحصیل میہڑ کے گاؤں فیض محمد دریائی میں ناگہانی آتشزدگی سے 9 افراد جاں بحق ، درجنوں مویشی ہلاک جبکہ 145 جل کر خاکستر ہو گئے ، مگر وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے کئے گئے اعلانات صرف اعلانات تک محدود ہیں جبکہ ہیومن رائٹس کے آواز اٹھانے والے تنظیموں کی آواز گنگ ہوکر رہ گئی ہے، یہ وہ تنظیمیں ہیں جو ایک کتے بھی مر جائے تو سڑکوں پر احتجاج کے لیے نکل آتی ہیں۔

دو روز قبل گاؤں فیض محمد دریائی میں لگنے والی آگ نے دیکھتے ہی دیکھتے تمام گھروں کو اپنے لپیٹ میں لے لیا۔ آتشزدگی کے دوران دیہاتیوں کی پوری زندگی کی کمائی سے بنائے گئے 145 گھر نہ صرف جل کر خاک کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئے بلکے 3 سے 17 سال کی عمر کے 9 بچے بھی حکومتی اور انتظامی نااہلی کی بھیٹ چڑہ گئے۔

یہ بھی پڑھیے

سکھر: تعمیر شدہ سڑکوں کی کھدائی جاری، عوام مشکلات کا شکار  

کمشنرکراچی کا شاپنگ مال کی غفلت سے معذور بچے کے خاندان کو دھمکیوں کا نوٹس

ناگہانی آگ نے ایک تو گوٹھ فیض محمد چانڈیو کے دیہاتیوں کے تو تمام ارمان اور آرزوئیں بھی جلا دیں جبکہ دو دنوں کے بعد آخر کار بے رحم صوبائی سرکار اور دادو کی ضلع انتظامیہ کو رحم آ ہی گیا جنہوں نے صوبائی ڈزاسٹر مینجمنٹ کی جانب سے ٹینٹ، کمبل، فولڈر چارپائیاں، واٹر کولر، مچھر دانیاں اور کچن سیٹ فراہم کئے ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ متاثری گوٹھ فیض محمد چانڈیو پہنچے اور امدادی کارروائیوں کا جائزہ لیا۔

انتظامیہ نے وزیراعلیٰ سندھ کی موجودگی میں امدادی سامان ، خیمے اور اشیائے خوردونوش بھی تقسیم کیں۔ اس دوران میڈیکل کیمپ بھی لگایا گیا اور متاثرین کو طبی امداد فراہم کی گئی۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے جاں بحق افراد کے ورثا کو پانچ پانچ لاکھ جبکے آگ سے جھلس کر زخمی ہونے والوں کو دو دو لاکھ دینے کا اعلان کرنے کے ساتھ سرکاری طور پر متاثرین کو نئے مکان تعمیر کرا دینے کا بھی اعلان کیا ہے اور اس قیامت صغرا پر غفلت برتنے والی ضلع انتظامیہ کیخلاف کاروائی کا بھی اندیہ دیا ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی جانب سے نقد رقم کی فراہم کے اعلانات تاحال اعلانات تک محدود ہیں ، کسی متاثرہ شخص کو لاکھوں کیا ایک پھوٹی کوڑی نہیں ملی ہے۔ متاثرین خیموں میں شب و روز گزارنے پر مجبور ہیں۔

دوسری جانب وہ غیرسرکاری تنظیمیں ، جب کسی امیر شخص کی بچی اغواء ہوجاتی ہے یا کوئی کتا کسی ٹرک کے نیچے آکر مر جاتا ہے تو واویلا مچا دیتی ہیں ہر سطح پر احتجاج کیا جاتا ہے ۔ حکومت کی سرزنش کی جاتی ہے۔ اگر کوئی شخص کسی شیر کو پالتو جانور کی پال لیتا تو انہیں جانوروں کے حقوق یاد آجاتی ہیں۔ مگر دادو کی تحصیل میہڑ کے دو دیہاتوں میں لگنے والے آگ کے نتیجے میں جانی اور مالی نقصان پر ان کی زبانوں پر تالے لگ گئے ، کسی جانب سے کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ وہ کہتے ہیں کہ "پِن ڈراپ سائیلنس” ہے۔

ادھر اپوزیشن کی جماعتوں کی جانب سے سیاسی بیانات کا سلسلہ جاری ہے ، حکومت سندھ کو کوسا جارہا ہے ، مگر عملی طور پر کسی نے کوئی امدادی کارروائی نہیں کی ہے۔ کوئی بستر ، کھانے اور دیگر سامان لے کر متاثرین تک نہیں پہنچا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ اور ان کی کابینہ کے دیگر ارکان ہیلی کاپٹر کے متاثرہ جگہوں کا جائزہ لے رہے ہیں ، جو کسی بھی صورت میں غریبوں کی تزہین سے کم نہیں۔

آگ سے متاثرہ افراد کی مدد کے لیے ایدھی فائونڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی کل جمعہ کی رات کو امدادی سامان کے ساتھ متاثرہ گوٹھ پہنچیں گے۔

واضع رہے کہ آگے جینے کیلئے تو سب کچھ ہو جائے گا مگر ان مائوں کو یہ دکھ زندگی بھر ستاتا رہے گا کہ وہ اس ہیرو شیما جیسی آگ سے اپنے لخت جگروں کو بچا نہ سکیں.

متعلقہ تحاریر