بھارتی سپریم کورٹ نے گیانواپی مسجد میں نماز کے بڑے اجتماعات پر پابندی ختم کردی
ہندوستان کی سپریم کورٹ نے منگل کے روز شمالی ہندوستان کی ایک ہائی پروفائل گیانواپی مسجد میں مسلمانوں کے بڑے نماز کے اجتماعات پر پابندی کے مقامی عدالت کے حکم کالعدم قرار دے دیا ، مقامی عدالت نے ایک سروے ٹیم کے کہنے پر کہ وہاں انہیں ہندو دیوتا شیوا اور دیگر ہندو تہواروں کی علامتوں کے آثار ملے ہیں۔
عدالت عظمیٰ نے ایک عبوری حکم میں کہا کہ مسلمانوں کے نماز کے حق کو کسی صورت متاثر نہیں کیا جانا چاہیے ، تاہم جن علاقوں میں ہندو مذہبی آثار پائے جاتے ہیں وہاں کی انتظامیہ ان کی حفاظت کے اقدام کرے۔
یہ بھی پڑھیے
ملک میں صرف ایک دن کا پیٹرول بچا ہے، سری لنکن وزیراعظم
مسجد میں عبادت کے حقوق پر اختلاف ہندو کارکنوں کی جانب سے جاری دہائیوں سے مہم کا حصہ ہے ، ہندو انتہا پسند یہ ظاہر کرنے کی کوشش کررہے کہ پرانے وقتوں میں مسلمانوں نے ہندوؤں کی عبادت گاہوں کو مسمار کرکے مساجد تعمیر کی تھیں۔
واضح رہے کہ 30 سال قبل ایک سابقہ تنازع کے نتیجے میں ملک بھر میں مہلک فسادات پھیل گئے تھے۔
سپریم کورٹ کا یہ حکم وارانسی کی ایک مقامی عدالت کے ایک دن بعد آیا ہے – ہندو مذہب کا سب سے مقدس شہر اور تاریخی گیانواپی مسجد بھی وہیں پر قائم ہے۔ مقامی عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ مسجد میں اسلامی اجتماعات کو 20 افراد تک محدود رکھا جائے۔
مقامی عدالت نے مسجد کے سروے کا حکم اس وقت دیا تھا جب پانچ خواتین نے اس کے ایک حصے میں ہندو رسومات ادا کرنے کی اجازت طلب کی تھی، ہندو خواتین کا اسرار تھا کہ کسی وقت یہاں پر ایک مندر تھا۔
گیانواپی مسجد، جو وزیر اعظم نریندر مودی کے حلقہ انتخاب میں واقع ہے، شمالی اتر پردیش کی ان متعدد مساجد میں سے ایک ہے جن کے بارے میں کچھ ہندوؤں کا خیال ہے کہ اسے اس مسجد کو مندروں کو مسمار کرکے تعمیر کیا تھا۔
مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے منسلک انتہاپسند ہندو گروپس کی جانب سے کچھ مساجد کے اندر کھدائی کرنے اور تاج محل کی تلاشی کی اجازت دینے کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ کے جج اس ہفتے ہندو اور مسلم درخواست گزاروں کی سماعت جاری رکھیں گے۔
ہندوستان کے 200 ملین مسلمانوں کے قائدین مسجد کے اندر سروے کو بی جے پی کے خاموش معاہدے سے جوڑ رہے ہیں اور آزادانہ عبادت کے حقوق کو سلب کرنے کی کوششوں کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
ایک جانب بی جے پی مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کے خلاف تعصب کی تردید کرتی ہے اور دوسری جانب کہتی ہے کہ وہ ترقی پسند تبدیلی چاہتی ہے جس سے تمام ہندوستانیوں کو فائدہ ہو۔
2019 میں، سپریم کورٹ نے ہندوؤں کو 16ویں صدی کی متنازعہ بابری مسجد کے مقام پر ایک مندر بنانے کی اجازت دی جسے 1992 میں ہندو ہجوم نے منہدم کر دیا تھا۔
ہندو انتہاپسندوں کا اسرار تھا کہ جس جگہ مسجد تعمیر کی گئی تھی وہاں پر بھگوان رام کی پیدائش ہوئی تھی۔
مسجد کے انہدام کے نتیجے میں ہندوستان بھر میں فسادات پھوٹ پڑے جس کے نتیجے میں تقریباً 2,000 افراد ہلاک ہوگئے تھے، جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔