سینیٹ میں صحافیوں کی ملازمتوں کے معاہدوں تک پیمرا کی رسائی کا بل مسترد

سینیٹر فیصل جاوید کا کہنا تھاکہ اپوزیشن زرائع ابلاغ کے کارکنان کے تحفظ پر بھی سیاست کر رہی ہے۔

پاکستان میں صحافیوں کی ملازمتوں کے معاہدوں اور تنخواہوں کی بروقت ادائیگی سے متعلق حکومتی بل سینیٹ میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے مسترد کر دیا ہے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے چیئرمین فیصل جاوید نے کارکن صحافیوں کو ملازمت کا کنٹریکٹ لیٹر دینے اور تنخواہوں کی بروقت ادائیگی کو یقینی بنانے کے لئے پیمرا کو نادہندہ چینل یا اخبار کے خلاف کارروائی کا پابند بنانے کا ترمیمی بل 2020 سینیٹ میں پیش کیا تھا۔ اُس بل کو پیر کے روز منظور کیے جانے کا مرحلہ آیا تو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سمیت حزب اختلاف کی بعض جماعتوں نے بل کی مخالفت کی اور اکثریتی ووٹ کی بنیاد پر بل مسترد ہوگیا۔

پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن نے بل مسترد ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات نے اس بل کی اتفاق رائے سے منظوری دی تھی جس میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں نے بعض ترامیم کے ساتھ بل منظور کیا تھا۔

پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن ( پی آراے ) کے صدر بہزادسلیمی اور سیکریٹری جنرل ایم بی سومرو اور ایگزیکٹو کمیٹی نے صحافیوں اور ابلاغ کے شعبے کے کارکنان کو تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر پیمرا کو متعلقہ چینل کے خلاف ایکشن لینے کا اختیار دینے سے متعلق پیمرا ترمیمی بل 2020 سینیٹ سے مسترد ہونے پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔

سینیٹ میں قائد ایوان شہزاد وسیم نے اپوزیشن کی بل کی مخالفت پر اظہار  برہمی کرتے ہوئے کہا کہ آج دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونا چاہیے کہ زرائع ابلاغ کے کارکنوں کے حق میں کون ہے اور مخالفت میں کون؟

سینیٹر فیصل جاوید کا کہنا تھاکہ اپوزیشن زرائع ابلاغ کے کارکنان کے تحفظ پر بھی سیاست کر رہی ہے۔ عامل صحافیوں اور زرائع ابلاغ کے دیگر کارکنان کے حقوق کی جنگ کے خلاف حزب اختلاف کا متحد ہونا سمجھ سے بالا تر ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستانی صحافیوں کو مالکان کے غیر منصفانہ سلوک کا سامنا

پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے سینیٹ میں پیمرا ترمیمی بل 2020 کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ پیمرا ملک میں سینسرشپ کا ذریعہ بن چکا ہےجسے حریفوں کے خلاف استعمال کیا گیا۔ اس بل کی وجہ سے پیمرا زرائع ابلاغ کے معاملات میں مداخلت کرے گا اور حکومت اس قانون کی وجہ سے زرائع ابلاغ پر پابندیاں لگا سکے گی۔ شیری رحمان نے کہا کہ میڈیا ورکرز کی آزادی کی آڑ میں پیمرا کو یہ اختیار نہیں دے سکتے کیونکہ ماضی میں پیمرا کا ایک بہت برا کردار رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بل پر پی ایف یو جے اور دیگر صحافی تنظیموں سے مشاورت کی جائے۔

انہوں نے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی جانب سے کارکنان کے حقوق کے تحفظ کے بل کی مخالفت پر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ حزب اختلاف کے اس رویے پر آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے پی آر اے ایگزیکٹو باڈی کا ہنگامی اجلاس طلب کیا جارہا ہے۔ پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن کی مسلسل کوششوں سے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات  سے منظوری کے بعد یہ بل سینیٹ میں پیش کیا گیا تھا جسے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سمیت بعض اپوزیشن جماعتوں نے مسترد کردیا۔

حالانکہ ان کی ترامیم کے ساتھ یہ بل قائمہ کمیٹی نے اتفاق رائے سے منظور کیا تھا۔ جس پر پی آراے نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر اپوزیشن سمجھتی تھی کہ بل میں بعض ایسے نقاط شامل تھے جس سے میڈیا کی آزادی سلب ہوسکتی تھی تو اپوزیشن کو ان شقوں کو ختم کرنے کے لیے ترامیم پیش کرنی چاہئیں تھیں نہ کہ اس بل کو یکسر مسترد کرنا چاہئے تھا۔

ان کا کہنا تھاکہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں وجود میں آنے والے الیکٹرانک میڈیا کے اداروں میں کام کرنے والے صحافیوں اور کارکنوں کے لیے ملازمت سے متعلق کوئی قانونی ڈھانچہ موجود نہیں اس وجہ سے آئے روز بالخصوص موجودہ دور حکومت میں تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور ملازمتوں سے اچانک برطرفی عام ہوگئی ہے جس کے تدارک کے لیے قانون سازی کی اشد ضرورت تھی۔

اس مقصد کے حصول کے لیے پیمرا ترمیمی بل 2020کسی حد تک پورا کررہا تھا جس کے مسترد ہونے کے بعد میڈیا کارکنوں کو ایک مرتبہ پھر پہلے کی طرح میڈیا مالکان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔

متعلقہ تحاریر