کیامیر شکیل الرحمٰن انسانی اسمگلنگ میں ملوث ہیں؟
واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق میر شکیل الرحمٰن نے ریحانہ بی بی کی ورجینیا میں ملازمت کا انتظام کیا تھا۔
مظلوموں کی آواز بننے کا دعویٰ کرنے والے جنگ گروپ کے مالک میر شکیل الرحمٰن پر ریحانہ بی بی نامی خاتون نے انسانی اسمگلنگ اور حبس بے جا میں رکھ کر زبردستی مشقت کرانے میں معاونت کا الزام عائد کیا ہے۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ میں ریحانہ بی بی نے دل دہلادینے والے انکشافات کیے ہیں۔
دنیا بھر میں جبری مشقت انسانی اسمگلنگ کی سب سے بڑی وجہ تصور کی جاتی ہے اور حیران کن طور پر میر شکیل الرحمٰن کو اس جرم میں ملوث پایا گیا ہے۔ ریحانہ بی بی نے میر شکیل الرحمٰن اور امریکی ریاست ورجینیا میں مقیم ایک پاکستانی خاندان کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کی درخواست دی ہے۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع رپورٹ کے مطابق 46 سالہ ریحانہ بی بی نے جنگ گروپ کے مالک پر انسانی اسمگلنگ کا الزام عائد کیا ہے۔ خاتون کا کہنا ہے کہ میر شکیل الرحمٰن نے انہیں مبینہ طور پر ورجینیا میں گھریلو کام کاج کے لیے ایک خاندان کے پاس ملازمت دلوائی تھی۔ لیکن جب وہ وہاں پہنچیں تو نہ صرف ان کے ساتھ تحکمانہ رویہ اختیار کیا گیا بلکہ ملازمت سے پہلے دکھائے جانے والے سبز باغ کی حقیقت بھی کسی اندھے کنویں سے کم ثابت نا ہوئی۔ ریحانہ بی بی سے 5 سال تک جبری طور پر مشقت کرائی جاتی رہی۔
ریحانہ بی بی نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ امریکا میں ان کے ساتھ جس بدسلوکی کا مظاہرہ کیا گیا ایسا نہ کبھی دیکھا نہ سنا۔ پاکستان میں بھی مالکان اپنے ملازمین کے ساتھ ایسا رویہ نہیں رکھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
جنگ گروپ کے برطرف ملازم اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے
ریحانہ نے بتایا کہ ان سے بغیر آرام دن رات کام لیا جاتا تھا۔ گھریلو کاموں کے علاوہ 3 بچوں کا خیال رکھنے اور ضعیف العمر خاتون کی دیکھ بھال کرنے کی ذمہ داری بھی انہی پر عائد تھی۔ اس کے باجود ریحانہ کو بنیادی سہولیات سے بھی محروم رکھا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ انہیں روزانہ غسل کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔
پورے گھر کے لیے کھانا پکانے والی ریحانہ کو ان کے کھانے میں کبھی گوشت نہیں دیا گیا۔ ریحانہ 5 سال تک ایک ایسے اسٹور روم میں رہائش پذیر تھیں جہاں کیڑے مکوڑوں کا بسیرا تھا۔
ریحانہ کے مطابق انہیں اس قدر تکلیف دی جاتی تھی کہ کئی مرتبہ اُنہیں خودکشی کرنے کا خیال بھی آیا۔ وہ فون پر اپنے شوہر سے کہتی تھیں کہ اب اگر وہ مذ ید اس خاندان کے ساتھ رہیں تو ان کی لاش ہی پاکستان آئے گی۔
بیٹی کی شادی کا موقع کسی بھی ماں کے لیے سب سے انمول ہوتا ہے۔ ریحانہ بی بی بھی اپنی بیٹی کی شادی پر نہایت خوش تھیں لیکن ان کے ارمانوں پر اس وقت اوس پڑگئی جب مالکان نے انہیں پاکستان بھیجنے سے انکار کردیا۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ظلم کی انتہا تو اس وقت ہوئی جب آئی پیڈ پر بھی انہیں شادی کی تقریب نہیں دکھائی گئی۔
دردمندوں کی آواز بننے والے چینل کے مالک نے ریحانہ کے معاملے پر مکمل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ میر شکیل الرحمٰن نے اپنے خلاف عائد کیے جانے والے کسی بھی الزام کا اب تک دفاع نہیں کیا ہے۔ یہاں تک واشنگٹن پوسٹ کے نامہ نگار نے ان کا موقف جاننے کے لیے سوالات بھی بھیجے جس کا انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میر شکیل الرحمٰن کے اس ردعمل سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ وہ اس دردمند خاتون کی آواز کو دبا دینا چاہتے ہیں۔