سوشل میڈیا پر سینٹری پیڈز کا اشتہار موضوع بحث

صارفین کے مطابق سینٹری پیڈز کے پیکٹ کو خوبصورت بنانے کے بجائے انہیں مفت فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

سینٹری پیڈز کے مشہور برانڈ آلویز نے سوشل میڈیا پر نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ صارفین کا کہنا ہے کہ پیڈز کی پیکجنگ کو خوبصورت بنانے کے بجائے انہیں مفت فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

آلویز نے پیڈز کی نئی ورائٹی متعارف کراتے ہوئے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اشتہار لگایا۔ جس پر ایک صارف نے پیکجنگ کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ آخر کار پیڈز کو بھی سیکسی بنادیا گیا۔ اس تبصرے نے کئی سوشل میڈیا صارفین کی توجہ حاصل کی جبکہ اس کی مخالفت میں بھی کچھ کمنٹ کیے گئے۔ ایک ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ پیڈز کے پیکٹ کو خوبصورت بنانے کے بجائے انہیں مفت فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں خصوصاً دیہی علاقوں میں خواتین کی بڑی تعداد عرصہ دراز سے سینٹری پیڈز کا استعمال نہیں کرپا رہی ہیں۔ پیڈز کو مفت فراہم کرنے کے حوالے سے حقوق نسواں کی تنظیموں نے آواز بھی اٹھائی لیکن خاطر خواہ نتائج نہ نکل سکے۔ ہمارے ملک میں اقتدار سنبھالنے والی کسی بھی حکومت نے کبھی بھی اس بارے میں کوئی بات نہیں کی نہ ہی کوئی اقدامات کیے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

50 فیصد پاکستانی شہری چینی ویکسین کے حق میں

پڑوسی ملک انڈیا کا حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ بالی ووڈ فلم پیڈ مین میں اس اہم ترین مسئلے کی جانب حکومت کو توجہ دلانے کی کوشش کی گئی ہے۔

ہمارے ملک میں سینٹری پیڈز کے استعمال اور حفظان صحت سے متعلق بات چیت کو ممنوع سمجھا جاتا ہے۔ جس سے دیہات میں رہنے والی نوجوان لڑکیوں کو آگاہی نہیں مل پاتی ہے۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے برائے اطفال یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 49 فیصد خواتین کو یا تو ماہواری سے متعلق کوئی معلومات نہیں یا بہت کم معلومات ہے۔ 20 فیصد لڑکیوں کو اس بارے میں صرف اسکول سے آگاہی ملی ہے۔ مختلف خواتین کو لگتا ہے کہ یہ صحت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں جبکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ پیشاب کی نالی میں ہونے والے انفیکشن کی ایک بڑی وجہ سینٹری پیڈز کے بجائے کپڑے کا استعمال کرنا ہے۔ دوسری طرف سینٹری پیڈز کا استعمال نہ کرنے کی ایک اہم وجہ لوگوں کی معاشی حالت بھی ہے۔

پاکستان میں سینٹری پیڈز کی مفت فراہمی کے حوالے سے پروگرام تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت پیڈز بنانے والی تمام کمپنیز پر ٹیکس ہٹادے تو قیمت میں نمایاں کمی آجائے گی اور خواتین کی ایک بڑی تعداد اسے خرید سکے گی۔

متعلقہ تحاریر