لاہور ہائی کورٹ نے غداری کے قانون کو آئین پاکستان سے متصادم قرار دے دیا

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے ابوذر سلمان ایڈووکیٹ کی  درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سنایا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ نے غداری کے قانون 124 (اے) کو آئین سے متصادم قرار دے دیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس قانون کی منسوخی سے غداری کے وہ تمام مقدمات خود بخود ختم ہو جائیں گے ، جو سیکشن 124 اے کے تحت قائم کیے گئے تھے۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے غداری کے قانون 124 (اے) کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔ عدالت نے غداری کے قانون 124 (اے) کے خلاف درخواستوں کو سماعت کے لیے منظور کرلیا۔

یہ بھی پڑھیے 

عمران خان نااہلی کیس: وکیل سلمان اکرم راجہ نے ڈی این اے کی مخالفت کردی

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 قومی اسمبلی سے متفقہ طور پر منظور

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے ابوذر سلمان ایڈووکیٹ کی  درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سنایا ہے۔

دوران سماعت سرکاری وکیل غداری قانون کے سیکشن 124 اے کا دفاع کیا تھا۔

درخواست گزار کے وکیل نے موقف اختیار کیا تھا کہ بغاوت کا قانون 1860 میں بنایا گیا تھا ، جو انگریز دور کی نشانی ہے۔ اس وقت بغاوت کا قانون غلاموں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اور کسی کے کہنے پر بھی مقدمہ درج کرلیا جاتا تھا۔

درخواست کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ آئین پاکستان ملک کےہر شہری کو اظہار رائے کا حق دیتا ہے۔ بغاوت کے قانون کو اب سیکشن 124 اے کے ذریعے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لیے اس قانون کو کالعدم قرار دیا جائے۔

عدالت نے وکلاء کے دلائل مکمل ہونے پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے سیکشن 124 اے کے خلاف درخواستیں منظور کرتے ہوئے اسے آئین پاکستان سے متصادم قرار دے دیا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس قانون کی منسوخی سے غداری کے وہ تمام مقدمات خود بخود ختم ہو جائیں گے ، جو سیکشن 124 اے کے تحت قائم کیے گئے تھے۔ وہ مقدمات میں ختم ہو جائیں کہ فلاں نے فوج پر تنقید کی تھی ، فلاں نے آرمی چیف پر تنیقد کی تھی ، فلاں نے سپریم کورٹ پر تنقید کی تھی۔

متعلقہ تحاریر