پنجاب اور خیبر پختونخوا انتخابات التوا کیس، فیصلہ محفوط، کل سنایا جائےگا
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ حکومت نے انتخابات کرانے کے حوالے سے کوئی یقین دہانی نہیں کرائی۔ عدالت نے فیصلوں میں توازن قائم کرنا ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات میں تاخیر کے خلاف درخواستوں پر سماعت ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ ہم پارلیمنٹ اور حکومت کا احترام کرتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے انتخابات کی راہ رکاوٹوں سے متعلق آگاہ نہیں کیا گیا۔
پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات میں تاخیر کے خلاف درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی ، دیگر ججز میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
الیکشن کمیشن کے اراکین اسمبلی کو نااہل قرار دینے کے اختیار کے خلاف درخواست دائر
مفتی تقی عثمانی کا سیاستدانوں اور اداروں کو مل بیٹھ کر سیاسی مسائل کا حل نکالنے کا مشورہ
پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات میں تاخیر کے خلاف درخواستوں پر سماعت مکمل ہونے پر سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا ہےجو کل سنایا جائے گا۔
یہ فیصلہ اس وقت محفوظ کیا گیا جب بینچ نے پی ڈی ایم کےوکلاء کو سننے سے انکار کردیا گیا۔ بینچ کا کہنا تھا چونکہ پی ڈی ایم نے بینچ پر عدم اعتماد کیا ہے اس لیے ان کے وکلاء کو بھی نہیں سنا جائے گا۔
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سماعت کے آخر میں سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری خزانہ کو سننے اور ان کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹس کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا ہم ان رپورٹ کا بھی جائزہ لیں گے جو وفاقی حکومت کی جانب سے پیش کی گئی ہیں۔ سب سے اہم رپورٹ سیکریٹری دفاع کی رپورٹ تھی۔ عدالت نے سیکریٹری دفاع کو حکم دیا تھا کہ وہ آج ہی ہر صورت اس رپورٹ کو عدالت میں جمع کرائیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ تمام تر حالات بھی دیکھنے ہوں گے کہ اگر انتخابات میں افسوسناک واقعہ ہو جاتا ہے تو اس کی ذمہ داری کون لےگا۔
ان کا کہنا تھا سارا بوجھ وفاقی حکومت پر آتا ہے ، یہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ فنڈز کا انتظام کرے اور ساتھ میں سیکورٹی کا انتظام کرے۔ اگر انتخابات میں کوئی حادثہ رونما ہوجاتا ہے تو سارا ملبہ سپریم کورٹ پر آجائے گا۔
چیف جسٹس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ 15 میں سے 9 ججز اپنا مائنڈ ڈسکلوز کرچکے ہیں ، تو باقی چھ ججز بھی اپنا فیصلہ ڈسکلوز کردیں۔ ان کا کہنا تھا کہ من پسند فیصلے لینے کا رواج چل پڑا ہے، من پسند ججز کا تقرر اور من پسند بیجز تشکیل دینے کو جو رواج چل پڑا ہے یہ بہت افسوسناک عمل ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا ہم تمام اداروں کو بہت احترام کرتے ہیں ، لیکن جو معاملہ آئین اور قانون کے مطابق سوال کا آجائے تو عدالت آئین اور قانون کے مطابق ہی فیصلہ کرے گی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ہمیں افسوس اس بات کا بھی ہے جو معاونت ہم حکومت کی جانب سے چاہتے وہ ہمیں نہیں ملی۔ ہم سمجھتے تھے کہ ہمیں مکمل معاونت فراہم کی جائے گی۔ سیاسی پارٹیوں کی جانب سے عدلیہ پر جانبداری کے الزامات لگا دیئے جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا ہم تمام سیاسی جماعتوں کو مکمل دیا کہ وہ مذاکرات کے ذریعےاپنے سیاسی معاملات کو حل کر لیں۔
دوران سماعت عدالت نے سیکریٹری کو رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا ، جس پر سیکریٹری دفاع نے رپورٹ کل تک جمع کرانے کا وقت مانگا، جس پر عدالت نے کہا کہ ہمارے پاس وقت نہیں ہے ، آپ کو آج ہی رپورٹ جمع کرانا ہوگی ، جس پر سیکریٹری دفاع نے سربمہر رپورٹ جمع کرادی ، اس کے علاوہ وزارت خزانہ نے عبوری رپورٹ جمع کرادی۔
اج کی سماعت کا احوال
وفاقی حکومت نے پنجاب اور کے پی انتخابات کیس میں اپنا جواب جمع کراتے ہوئے سپریم کورٹ سے پی ٹی آئی کی درخواست مسترد کرنے کی استدعا کردی۔
سماعت کے دوران حکومت نے موقف اختیار کیا کہ یکم مارچ کا سپریم کورٹ کا فیصلہ اکثریت سے دیا گیا، تین رکنی بینچ متبادل بینچ کے طور پر تحریک انصاف کی درخواستوں پر سماعت نہ کرے۔
حکومت نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف کی درخواست رد کی جائے۔
حکومت کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے جو ججز انتخابات کیس کو سن چکے ہیں، انھیں نکال کر باقی ججز پر مشتمل بینچ بنایا جائے، پہلے راؤنڈ میں دیا گیا الیکشن کا فیصلہ چار تین کی اکثریت سے دیا گیا تھا۔
حکومت کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ جسٹس اعجاز الاحسن پہلے راؤنڈ میں کیس سننے سے انکار کرچکے ہیں، چیف جسٹس اور جسٹس منیب اختر فیصلہ دینے والے بینچ کا حصہ تھے، اس لیے حکومت سمجھتی ہے کہ چیف جسٹس اور جسٹس منیب اختر بھی اس کیس کو نہ سنیں۔
کیس کی سماعت شروع ہوئی تو پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہم عدالتی کارروائی کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ اخبارات میں تو کچھ اور چھپا تھا ، اگر بائیکاٹ کرنا ہے تو عدالتی کارروائی کا حصہ نہ بنیں ، اور اگر بائیکاٹ نہیں کیا تو لکھ کردے دیں۔
جس پر فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ ہم نے تو بائیکاٹ کیا ہی نہیں تھا ، ہمارے درخواستوں کے قابل سماعت ہونے اور بینچ کے دائرہ اختیار پر تحفظات ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آپ ایک طرف بینچ پر اعتراض کرتے ہیں دوسری طرف کارروائی کا حصہ بھی بنتے ہیں ، حکومتی اتحاد کے اجلاس کا اعلامیہ پڑھ کر سنائیں، جو زبان اس میں استعمال کی گئی ہے، گزشتہ 48 گھنٹے سے میڈیا کہہ رہا ہے کہ اعلامیے کے مطابق سیاسی جماعتیں بینچ پر عدم اعتماد کر رہی ہیں، ہم پر اعتماد نہیں ہے تو دلائل کیسے دے سکتے ہیں، اگر اعلامیہ واپس لیا ہے تو آپ کو سن لیتے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ کو کیا ہدایت ملی ہیں، حکومت عدالت کا بائیکاٹ نہیں کر سکتی؟
جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ حکومت بائیکاٹ نہیں کرسکتی، حکومت آئین کے مطابق چلتی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سوال اٹھایا تھا کہ الیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی تاریخ کیسے دے سکتا ہے؟ قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا، عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے، 1988 میں بھی عدالت کے حکم پر انتخابات آگے بڑھائے گئے تھے، عدالت زمینی حقائق کا جائزہ لے کر حکم جاری کرتی ہے، جس حکم نامے کا ذکر کر رہے ہیں اس پر عمل ہو چکا ہے۔
اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ پہلے راؤنڈ میں نو رکنی بینچ نے مقدمہ سنا تھا ، 21 فروری کو سماعت کا حکم نامہ آیا، دو ججز کے اختلافات کی تفصیلات سامنے آ چکی ہیں ، دو ججز نے پہلے دن درخواستیں خارج کر دی تھیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ جسٹس منصور اور جسٹس جمال مندوخیل کے تفصیلی نوٹ کتنے رکنی بینچ کے تھے؟ 27 فروری کو 9 رکنی بینچ نے ازسرنو تشکیل کیلئے معاملہ چیف جسٹس کو بھیجا تھا، جب بینچ دوبارہ تشکیل ہوا تو پانچ رکنی تھا، کیا چیف جسٹس کوئی بھی پانچ ججز شامل نہیں کرسکتے تھے؟۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آپ کی رائے سے اتفاق کرتا ہوں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 4/3 کے فیصلے والی منطق مان لی تو معاملہ اس 9 رکنی بینچ کے پاس جائے گا، فیصلہ یا نو رکنی بینچ کا ہوگا یا پانچ رکنی بینچ کا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نو رکنی بینچ کے فیصلے میں کہیں نہیں لکھا کون رضاکارانہ الگ ہورہا ہے، کسی نے بینچ سے الگ ہونا ہو تو جوڈیشل آرڈر لکھا جاتا ہے، عدالت بینچ کی ازسرنو تشکیل کا حکم دے تو اسے نکالنا نہیں کہتے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے خود کہا وہ اپنی شمولیت چیف جسٹس پر چھوڑتے ہیں، بینچ کا کوئی رکن بھی نہ ہو تو سماعت نہیں ہوسکتی، پانچ رکنی بینچ نے دو دن کیس سنا، کسی نے کہا دو ارکان موجود نہیں، کیا کسی نے یہ کہا کہ بینچ سات رکنی ہے؟ پہلی سماعت پر کوئی جج درخواست خارج کردے پھر بینچ میں نہ بیٹھے تو فیصلہ نیا بینچ کرے گا؟۔
چیف جسٹس نے کہا کہ دو ججز کی رائے کے بعد نیا بینچ بنا اور ازسرِنو سماعت ہوئی، بینچ ارکان نے دونوں ججز کے رکن ہونے کا نقطہ نہیں اٹھایا، زیر حاشیہ میں بھی لکھا ہے کہ دو ججز کی آراء ریکارڈ کا حصہ ہیں فیصلے کا نہیں، ریکارڈ میں تو متفرق درخواستیں اور حکمنامے بھی شامل ہوئے ہیں، ابھی تک آپ ہمیں اس نقطے پر قائل نہیں کرسکے۔
اٹارنی جنرل نے دلیل دی کہ دو ججز نے جو رائے دی تھی اسے الگ نہیں کیا جاسکتا، مسئلہ یہ ہے کہ اکثریت میں رائے کس کی ہے، حل یہ ہے کہ جنہوں نے پہلے مقدمہ سنا وہ اب بنچ سے الگ ہوجائیں۔
اٹارنی جنرل نے جسٹس فائز والے فیصلے کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کے 29 مئی کے فیصلے کے بعد رجسٹرار آفس نے ایک سرکلر جاری کیا ، عدالتی حکم یا فیصلے کو انتظامی سرکلر سے ختم نہیں کیا جا سکتا ، عدالتی حکم نظر ثانی یا کالعدم ہونے پر ہی ختم ہوسکتا۔
چیف جسٹس نے وضاحت کی کہ سرکلر سے کسی فیصلے کو واپس نہیں لیا گیا، فیصلے میں انتظامی ہدایات دی گئی تھیں، 184/3 کے مقدمات کی سماعت روکنے کے معاملے پر سرکلر آیا ہے، جس میں لکھا ہے کہ پانچ رکنی بنچ کے فیصلے کی خلاف ورزی کی گئی تھی، مقدمات سماعت کیلئے مقرر نہ کرنے کے انتظامی حکم پر سرکلر آیا ہے، جسٹس فائز عیسی کے فیصلے میں کوئی واضح حکم نہیں دیا گیا۔
چیف جسٹس نے قاضی فائز کے فیصلے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ فیصلے میں لکھا ہے کہ مناسب ہوگا کہ 184/3 کے مقدمات کی سماعت روکی جائے، 29 مارچ کے فیصلہ میں ہدایت نہیں بلکہ خواہش ظاہر کی گئی ہے، عوام کے مفادات میں مقدمات پر فیصلے ہونا ہیں ناں کہ سماعت موخر کرنے سے، فیصلے میں تیسری کیٹگری بنیادی حقوق کی ہے، بنیادی حقوق تو 184/3 کےہر مقدمےمیں ہوتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ عدالتی فیصلے کو پھر بھی سرکولر کے ذریعے ختم نہیں کیا جاسکتا، موجودہ مقدمہ میں بنیادی حقوق کا ذکر ہے، موجودہ کیس تیسری کیٹگری میں آسکتا ہے، رولز بننے تک سماعت موخر کی جائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نےرواں سال پہلا سوموٹو نوٹس لیا تھا، دو اسمبلیوں کے اسپیکرز کی درخواستیں آئی تھیں، ازخودنوٹس لینے میں ہمیشہ بہت احتیاط کی ہے، اس بات سے متفق نہیں کہ یہ مقدمہ دیگر 184/3 کے مقدمات سے مختلف ہے، جن کے رولز بنے ہیں ان مقدمات پر کیسے کارروائی روک دیں؟۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایک جانب کہتے ہیں فل کورٹ بنائیں ساتھ کہتے ہیں سماعت نہ کریں، پہلے طے تو کر لیں سماعت ہوسکتی ہے یا نہیں، آپ کا مؤقف مان لیں تو فل کورٹ بھی سماعت نہیں کرسکتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ فیصلے پر دستخط کرنے والے جج نے خود کو بینچ سے الگ کرلیا، کیسے ہوسکتا ہے فیصلہ لکھنے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مقدمہ سنیں؟ آپ نے معاملہ فہم ہوتے ہوئے دوبارہ فل کورٹ کی استدعاء نہیں کی، آپ کی زیادہ سے زیادہ استدعاء لارجر بینچ کی ہوسکتی ہے۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ لارجر بینچ کی استدعا آگے جاکر کروں گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کسی جج کو بینچ سے نکالا گیا نہ کوئی رضاکارانہ الگ ہوا، 9 ارکان نے چیف جسٹس کو معاملہ بھجوایا، 27 فروری کے 9 ججز کے حکم نامے سے دکھائیں بینچ سے کون الگ ہوا؟ عدالتی ریکارڈ کے مطابق کسی جج نے سماعت سے معذرت نہیں کی، فل کورٹ میٹنگ فائدہ مند ہو سکتی ہے لیکن فل بینچ نہیں، گزشتہ تین دن میں سینیئر ججز سے ملاقاتیں کی ہیں۔
کن ججز کا بینچ بنایا جائے
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو ججز 9 رکنی بینچ کا حصہ نہیں تھے ان پر مشتمل بینچ بنایا جائے ، 3/2 اور 3/4 کا فیصلہ باقی دو ججز کو کرنے دیا جائے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ ایک فیصلہ تین رکنی اکثریت نے دیا ایک دو رکنی اقلیت نے، نظرثانی اکثریتی فیصلے کی ہوتی ہے، جن ججز کے نوٹ کا حوالہ دے رہے ہیں کیا وہ پانچ رکنی بینچ میں تھے؟
اٹارنی جنرل نے درخواست کی کہ حساس معاملہ ہے، سیکیورٹی معاملات پر ان کیمرا سماعت کی جائے۔
فوج مصروف ہے تو نیوی اور ائیر فورس سے مدد لی جاسکتی ہے
چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی حساس چیز سامنے آئی تو چیمبر میں سن لیں گے، فورسز کا معاملہ صرف آرمی کا نہیں بلکہ نیوی اور ائیر فورس کا بھی ہے، برّی فوج مصروف ہے تو نیوی اور ائیر فورس سے مدد لی جاسکتی ہے، ویسے فوج میں ہر یونٹ یا شعبہ جنگ کیلئے نہیں ہوتا، کوئی اکر کہے تو صحیح کہ کتنے سیکیورٹی اہلکاروں کی ضرورت ہے۔
سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمود الزمان عدالت میں پیش ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں سیکورٹی حالات سنگین ہیں، ریزور فورس موجود ہے جسے مخصوص حالات میں بلایا جاتا ہے، ریزرو فورس کی طلبی کیلئے وقت درکار ہوتا ہے۔
عدالت نے سیکریٹری دفاع سے کل تک تحریری رپورٹ طلب کرلی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سربمہر لفافوں میں رپورٹ فراہم کریں، جائزہ لے کر مواد واپس کر دیں گے، سوال یہ ہے کہ 8 اکتوبر کو کیسے سب ٹھیک ہو جائے گا؟ کیا الیکشن کمیشن کو combat والے اہلکار درکار ہیں؟ ، الیکشن ڈیوٹی کیلئے کمبیٹ اہلکاروں کی ضرورت نہیں ہوتی، الیکشن کل نہیں ہونے پورا شیڈول آئیگا۔
عمران خان کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ سیکورٹی اہلکار صرف ایک دن کے لیے چاہئیں، سیکورٹی کا ایشو تو ہمیشہ رہے گا ، جبکہ آئینی ضرورت نوے دن کی ہے، ریٹائرڈ لوگوں کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔
سیکریٹری خزانہ کی رپورٹ عدالت میں پیش کردی گئی۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سیکریٹری خزانہ کی رپورٹ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے تناظر میں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کے لیے 20 ارب چاہئیں، کون سا ترقیاتی منصوبہ 20 ارب روپے سے کم ہے؟ درخواست گزار کے مطابق ارکان کو 170 ارب روپے کا فنڈ دیا جارہا ہے۔
جسٹس منیب نے کہا کہ کیا کھربوں روپے کے بجٹ سے 20 ارب روپے نکالنا ممکن نہیں ؟ وزیر خزانہ کا بیان تھا کہ فروری میں 500 ارب روپے سے زائد کا ٹیکس جمع ہوا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پٹرولیم مصنوعات پر حکومت کا خسارہ 157ارب روپے تھا، خسارہ 177 ارب ہوجاتا تو کیا ہوجاتا، کیا تنخواہوں میں کمی نہیں کی جا سکتی، ؟ ججز سے تنخواہیں کم کرنا کیوں شروع نہیں کرتے، قانونی رکاوٹ ہے تو عدالت ختم کردے گی، پانچ فیصد تنخواہ تین اقسام میں کاٹی جا سکتی ہے، الیکشن کمیشن کو بھی اخراجات کم کرنے کا کہیں گے، کونسا مالی امور کا ماہر عدالت کو بریف کرے گا۔