مریم اورنگزیب کا لاپتہ عمران ریاض خان کو صحافی تسلیم کرنے سے انکار

وزیر اطلاعات نے لاپتہ صحافی کو تحریک انصاف کا ترجمان قرار دیکر ان پر انتشار پھیلانے کا الزام عائد کردیا، بطور انسان گمشدگی کی مذمت بھی کردی، سینئر صحافی اور تجزیہ کاروں کی مریم اورنگزیب پر شدید تنقید

وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے پنجاب پولیس کی تحویل سے لاپتہ عمران ریاض خان کو صحافی تسلیم کرنے سے انکا کردیا۔

مریم اورنگزیب نے عمران ریاض خان کو سیاسی جماعت کا ترجمان قرار  دیدیا۔سینئر صحافیوں اور تجزیہ کاروں نے مریم اورنگزیب  کے بیان کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

رہنما تحریک انصاف شیریں مزاری کو پنجاب پولیس نے چوتھی مرتبہ گرفتار کرلیا

شیرین مزاری کی دوبارہ گرفتاری: آئی جی اسلام آباد کو توہین عدالت کا نوٹس جاری

برطانوی نشریاتی ادارے چینل 4 سے وابستہ پاکستانی صحافی سکندر کرمانی نے مریم اورنگزیب  سے راہ چلتے ہوئے گفتگو کی  جس کی وڈیو انہوں نے اپنے ٹوئٹر  ہینڈل پر شیئر کی ہے۔

سکندر کرمانی نے مریم اورنگزیب سے سوال کیا کہ صحافیوں کو لاپتہ اور گرفتار کیا جارہا ہے،یہ بالکل ویسے ہی مسائل ہیں جن پر آپ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے پریشانی کا اظہار کرتی تھیں، اب آپ کی حکومت ذمے دار ہے۔

وزیراطلاعات مریم اورنگزیب نے سوال کا جواب دینے کے بجائے الٹا سوال داغ دیا کہ” کوئی ایک صحافی بھی لاپتہ ہے تو مجھے بتائیں“۔ سکندر کرمانی نے عمران ریاض خان کا نام لیا ۔

اس پر مریم اورنگزیب نے کہاکہ عمران ریاض اب ایک سیاسی جماعت کا ترجمان ہے، آپ کو تفریق پیدا کرنا ہوگی،آپ کسی ایک صحافی کا نام بتائیں جو لاپتہ ہے، کوئی ایسا صحافی جسے گولی ماری گئی ہے، کوئی ایک صحافی جسے اغواکیا گیا ہے، کوئی ایک صحافی جس کی پسلیاں توڑی گئی ہوں۔

وزیراطلاعات نے مزید کہا کہ آپ  کو صحافی اور سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنے والے صحافی میں فرق کرنا ہوگا،جب کوئی صحافی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرتا ہےتو وہ تشدد پر اکساتا ہے اور اس جماعت کا ترجمان بن جاتا ہے،برائے مہربانی انہیں اصل صحافیوں سے خلت ملت نہ کریں جو رپورٹنگ اور سچی صحافت کرتے ہیں۔

سکندر کرمانی نے کہاکہ یہ سب باتیں عمران خان اور ان کی پارٹی اپنے دورحکومت میں نشانہ بنائےجانے والے  صحافیوں کے بارے  میں بھی کرتے تھے کہ وہ متعصب ہیں اور  ہماری پارٹی کے خلا ف ایجنڈا لیکرچلتے  ہیں۔

اس پر مریم اورنگزیب نے کہاکہ عمران خان کو میڈیا کا شکاری کہاگیا جبکہ شہبازشریف کے  دور حکومت میں ایک سال کے دوران میڈیا کی آزادی میں 7 درجے بہتری آئی ہے اور جس تنظیم کا عمران خان کو میڈیا کا شکاری قرار دیا تھااسی نے شہبازشریف کے دور حکومت میں آزادی اظہار رائے اور میڈیا کی آزادی کے حوالےسے پاکستان  کی درجہ بندی میں 7 پوائنٹس  کااضافہ کیا ہے۔

انہوں نےکہاکہ عمران خان نے صحافیوں کو گرفتار کیا، انہیں خاموش کرایا ،ان کے چلتے  ہوئے پروگرام   اور چینل   بند کروائے جن کا آپ آج بھی نام لے سکتے ہیں جبکہ آج تمام چینل اور اینکرز اپنی مرضی کے پروگرام کررہے ہیں اور جیساکہ میں نے  کہاکسی ایک لاپتہ صحافی کا نام بتائیں۔

سکندر کرمانی نے کہا کہ عمران ریاض کو آپ کتنا ہی اچھا یا متعصب صحافی کہیں لیکن اس وقت وہ لاپتہ ہے،پولیس کہہ رہی ہے  کہ وہ ہمارے پاس نہیں ہے۔

مریم اورنگزیب نے کہاکہ شکر ہے کہ آپ نے  اپنا موقف بدلا اور صحافی کی گمشدگی سے ایک انسان کی گمشدگی پر آئے،جہاں  تک کسی انسان کی بات ہے چاہے  وہ مریم اورنگزیب ہویا کوئی عمران ریاض خان ،اگر اسے لاپتہ کیا جاتا ہےتو میں اس کی  مذمت کرتی ہوں اور جہاں تک میری معلومات ہیں ان پر مقدمات ہیں اور انہیں عدالت کے سامنے جواب دینا ہےلیکن میں اس کی مذمت کرتی ہوں اور اس میں اس کے علاوہ کسی دوسرے موقف  کی مذمت کرتی ہوں جس کے متعلق میں بات کرتی آئی ہوں۔

سکندر کرمانی نے سوال کیا کہ مگرمطیع اللہ جان اور اسد طور جیسے  صحافی جو عمران خان کے دور میں نشانہ بنے ہیں وہ آپ کی حکومت کو بھی اسی طرح دیکھتے ہیں تاہم مریم اورنگزیب نے اس  سے اتفاق نہیں کیا اور اپنے موقف پر قائم رہیں کہ اگر ایسا ہوتا توعمران خان کو میڈیا کیلیے وحشی قرار دینے والی تنظیم ہماری حکومت میں پاکستان کی درجہ بندی میں 7 درجے بہتری نہیں لاتی۔

دوسری جانب سینئر صحافی مطیع اللہ جان نے مریم اورنگزیب کی گفتگو کو مایوس کن قراردیدیا۔انہوں نے کہاکہ ایک سیاستدان اور حکومتی  ترجمان کی طرف سے یہ  مایوس کن ردعمل تھا، صحافی نہ ہونے کی بنیاد پر ممکنہ طور پر جبری گمشدگی کا جواز پیش کرنا شرمناک ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ لاپتہ کو کوئی  غیرانسانی مخلوق نہیں بتایا گیا۔ وہ اتنا تو کرہی سکتی تھیں کہ پاکستان کے شہری کی بازیابی کے لیے حکومتی کوششوں کے بارے میں آسانی سے وضاحت کردیتیں  ۔

سینئر صحافی رضا رومی نے وزیراطلاعات کے  بیان پر اپنے ٹوئٹ میں لکھاکہ مریم اورنگزیب، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتاکہ عمران ریاض  صحافی ہے، مبصر ہے  یا سیاسی پارٹی کا کارکن ہے۔ وہ لاپتہ ہے اور طریقہ کار پر عمل نہیں کیا جارہا ، یہ قانون کی خلاف ورزی ہے۔ مدت حکومت اور  ایجنسیاں اسے عدالت میں پیش کریں اور اسے اپنا دفاع کرنے دیں۔

وزیراعظم کے سابق معاون خصوصی فہد حسین نے کہاکہ یوٹیوبر عمران ریاض خان کوعدالت میں پیش کیا جائے،اس کا مسلسل لاپتہ رہنا ایک دھوکہ ہے۔

وکیل اور انسانی حقوق کے کارکن جبران ناصرنے مریم نواز کےبیان پر ردعمل میں  لکھاکہ ہماری حکومت  کی ترجمان کا  ماننا ہے کہ عمران ریاض خان صحافی نہیں ہیں اس لیے  حقیقی  صحافیوں کو ان کی فکر نہیں کرنی چاہیے، درحقیقت وہ سمجھتی ہیں کہ عمران ریاض کو پی ٹی آئی کے حامی کے طور پر دیکھا جانا چاہیے اور اس لیے انہیں ایک کم تر انسان سمجھا جانا چاہیے جو اس  سلوک کا مستحق ہے۔  اب ذرا تصور کریں کہ فوجی  عدالتوں کا سامنا کرنے والے عام شہریوں کی حالت زار کیا ہوگی ۔

متعلقہ تحاریر