پرویز الہی کی حراست کو غیر قانونی قرار دینے کی استدعا: ’یہ پہلی بار نہیں ہوا، 75 سال میں پہلی بار آپ کو مذاق یاد آیا‘

تحریک انصاف کے صدر پرویز الہی کی حراست کو غیر قانونی قرار دینے کیلئے دائر درخواست کی سماعت کے دوران ان کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کے سامنے دلائل پیش کیے جس کی سربراہی جسٹس سردار طارق مسعود کر رہے تھے۔
جمعرات کو سردار لطیف کھوسہ نے پرویز الہی کی گرفتاریوں اور رہائی کی تفصیل عدالت کے سامنے رکھتے ہوئے موقف پیش کیا کہ ان کے موکل کو دو مقدمات میں ڈسچارج کیا گیا لیکن ان کو پھر بھی چھوڑا نہیں گیا۔
لطیف کھوسہ نے عدالت کو جب بتایا کہ لاہور ہائیکورٹ کے سنگل بنچ نے گرفتاری پر گرفتاری کرنے سے پولیس کو روکا تھا تو جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ ’یہ تو ایک جنرل آبزرویشن نہیں تھی؟ اس سے پہلے پرویز الہی گرفتار تو نہیں تھے ناں؟‘
اس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ ’پرویز الہی اس سے پہلے بھی گرفتار ہو چکے تھے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’ہمارے ساتھ وہ ہو رہا ہے جیسے کشمیر میں ہوتا ہے۔‘
جسٹس سردار طارق مسعود نے انھیں ٹوکتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ’کشمیر کی بات نہ کریں، کشمیر میں انڈین فوج قابض ہے۔‘ اس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ ’تو ہمارے ساتھ ویسا سلوک نہ کریں ناں۔‘
لطیف کھوسہ نے کہا کہ ’لاہور ہائیکورٹ نے کہا تھا مقدمات کی تفصیل دینے تک کسی کیس میں گرفتار نہیں کرنا۔‘ اس پر جسٹس مسرت ہلالی نے سوال اٹھایا کہ ’ایسا بلینکٹ ریلیف کس قانون کے تحت دیا جا سکتا ہے؟‘
جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ ’جج صاحب نے کسی قانون کے تحت ہی یہ لکھا ہو گا وہ بتائیں۔ ہم کسی کو ایسا ریلیف دیں وہ جرم کرتا پھرے پولیس کچھ نہ کرے؟‘
جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ ’جرم کا ایسا لائسنس تو نہیں دیا جا سکتا۔‘ اس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ ’عدالتوں کا بھی ایسے مذاق نہیں بنایا جا سکتا۔‘ اس کے جواب میں جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ ’یہ مذاق پہلی بار نہیں ہوا، 75 سال میں پہلی بار آپ کو مذاق یاد آیا۔‘
سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ ’آپ نے عدلیہ کا تحفظ کرنا ہے تو ٹھیک ورنہ پاکستان کا اللہ حافظ۔‘ پرویز الہی کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے عدالت میں کہا کہ ’کپڑوں کے بغیر آکر اغوا کر لیا جاتا ہے‘ تو اس پر جسٹس سردار طارق مسعود نے سوال ’کیا دن کو بغیر کپڑوں کے؟‘ لطیف کھوسہ نے جواب دیا ’میرا کہنے کا مطلب ہے یونیفارم کے بغیر۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے لطیف کھوسہ سے سوال کیا کہ ’کیا ہائیکورٹ نے ماضی میں آرٹیکل 199 کے تحت بلینکٹ ریلیف دیا؟‘ جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ ’اگر ایسا کوئی فیصلہ موجود ہے تو بتائیں۔ سمجھ میں نہیں آ رہا ہائیکورٹس بلینکٹ ریلیف کیسے دے رہی ہیں؟ ایک کیس میں ضمانت کے ساتھ کہا جاتا ہے اسے آگے بھی کسی کیس میں نہیں پکڑنا۔ پورے پاکستان کو پھر ایسا ہی حق دیں۔‘
جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ ’ہم دیکھتے ہیں بندہ پیش نہیں ہوتا پھر بھی ضمانت مل جاتی ہے۔‘ سردار لطیف کھوسہ نے عدالت کو ایسے فیصلے پیش کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ ’سمجھ میں تو یہ بھی نہیں آ رہا پاکستان میں ہو کیا رہا ہے۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ’بات ایم پی او میں گرفتاری کی ہوتی تو میں آپ کیساتھ تھا، ایک الگ ایف آئی آر میں پکڑ لیا گیا تو ہائیکورٹ حبس بے جا کی درخواست پر کیا کرتی؟‘ سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ ’ہائیکورٹ یہی کر سکتی تھی جو آپ نے چئیرمین پی ٹی آئی کے کیس میں کیا۔‘ اس پر جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا ’وہ گھڑی والا؟ وہاں تو گھڑی پیچھے کی گئی یہاں کیسے کریں؟‘ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ’اس کیس کے حقائق الگ تھے۔‘
سردار لطیف کھوسہ نے بنچ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ’آپ یہی کر رہے ہیں تو پھر پاکستان کا مقدر ہے۔‘ اس پر جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ ’پاکستان کا مقدر چند لوگوں سے نہیں جڑا۔‘ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ’کھوسہ صاحب قانونی بات کریں آپ جذباتی ہو جاتے ہیں۔‘
دوسری جانب جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ ’کچھ غلط ہوا ہے تو آپ مدعی بن کر پرچے کروائیں۔‘ اس پر لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ ’پرچہ تو میں اپنے گھر پر فائرنگ کا نہیں کٹوا سکا۔‘
جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ ’آپ کی ہائیکورٹ میں درخواست حبس بے جا کی حد تک تھی، جب کوئی ادارہ آ کر بتا دے فلاں کیس میں گرفتاری ہوئی ہے تو حبس بے جا کیس غیر موثر ہو جاتا ہے۔‘
سردار رزاق ایڈوکیٹ نے اس موقعے پر کہا کہ ’شیخ رشید کو بھی غائب کیا گیا ہے‘ تو جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ ’ہمارے سامنے شیخ رشید کا معاملہ نہیں، لاہور ہائیکورٹ کا آرڈر چیلنج ہوا ہے۔‘
لطیف کھوسہ نے کہا کہ ’پورا ملک اس وقت مشکل سے گزر رہا ہے‘ تو جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں یہ تمام سنجیدہ مسائل قانون کے مطابق ہی دیکھیں۔‘ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ’کھوسہ صاحب، ہمیں بنیادی حقوق کا علم ہے فکر نہ کریں۔‘ عدالت نے اس درخواست کی سماعت ملتوی کر دی