عمران خان کو ’بتائے بغیر‘ اٹک جیل سے اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا، پی ٹی آئی وکیل کا دعویٰ

سائفر کیس کی سماعت کے دوران جج ابوالحسنات ذوالقرنین اور پی ٹی آئی وکیل شیراز رانجھا کے درمیان مکالمہ ہوا جس میں عمران خان کی اٹک جیل سے اڈیالہ جیل منتقلی زیرِ بحث آئی۔

جمعرات کو پی ٹی آئی وکیل شیراز رانجھا نے عمران خان کی اڈیالہ جیل منتقلی کی درخواست پر غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو ’بتائے بغیر‘اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا ہے جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔

جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے ریمارکس دیے کہ اڈیالہ جیل کے حالات سازگار نہیں، ماحول اٹک جیل سے بہت مختلف ہے۔ ’اڈیالہ جیل میں 22 سو ملزمان کی گنجائش ہے لیکن سات ہزار قیدی رکھے ہوئے ہیں۔ درجن مرغیوں کے ڈربے میں بتیس مرغیاں ہوں گی تو کیا حالات ہوں گے؟‘

’اٹک جیل میں چیئرمین پی ٹی آئی سے آمنے سامنے بات ہوتی تھی، اڈیالہ میں تو حالات ہی مختلف ہیں۔‘

جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے وکیل سے استفسار کیا کہ اڈیالہ جیل میں بہت رش ہے، اٹک جیل میں سکون تھا جس پر شیرازرانجھا ایڈووکیٹ نے کہا کہ عمران خان پر غیر ضروری سختی ہو رہی ہے، عدالت بہتر کلاس کا فیصلہ کرتی ہے لیکن فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔

انھوں نے پوچھا کہ ’عمران خان کو ٹی وی، بہتر بستر کیوں نہیں دیتے؟ اٹک جیل میں سکون تھا۔‘

جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ ’میں نے اٹک جیل میں لائبریری، ورزش، اخبار کی سہولیات عمران خان کو دی تھیں۔ جیل منتقلی کا خوامخواہ تماشا بنایا گیا۔ اڈیالہ جیل میں کوئی کہانی ہی نہیں۔‘

وکیل نے کہا کہ ’جیل منتقلی کی درخواست دائر کرنے سے قبل شیر افضل مروت کو قانونی ٹیم سے مشاورت کرنی چاہیے تھی۔ شیرافضل مروت نے حتمی مشاورت کیے بغیر ہائیکورٹ اور آپ کی عدالت میں درخواست دائر کر دی۔ اٹک جیل میں وکلا کی ملاقات بہت آسانی سے تھی۔ اڈیالہ جیل میں تو بہت مسائل ہیں۔‘

جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ ’میں کل ڈپٹی سپرٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کے دفتر بیٹھا تھا۔ میرے سامنے سے 70 ملزمان گزرے۔ میری تو پیٹرول کی پوری ٹینکی لگتی تھی لیکن اٹک جیل میں سماعت آسانی سے ہوتی تھی۔‘ شیراز رانجھا ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’آپ نے مائنڈ نہیں کرنا۔ سائفر کیس کی سماعت 10 اکتوبر کو تھی، نقول کے لیے کیوں جلد سماعت رکھی؟‘

جج ابوالاحسنات ذوالقرنین نے ریمارکس دیے کہ ’اگر سائفر کیس کا ٹرائل چلانا ہے تو بتائیں، نہیں چلانا تب بھی بتا دیں۔ ٹرائل کے لیے وافر وقت دے رہا ہوں۔ آپ کی قانونی ٹیم کو سمجھ ہی نہیں آ رہی، میں سائفرکیس کا ٹرائل بہت مؤثر انداز میں چلانا چاہ رہا ہوں۔‘

’نہیں تو کوئی اور سائفرکیس کا ٹرائل کر لے گا۔ سائفر کیس میں چالان کے نقول کبھی نہ کبھی تو فراہم کرنے ہیں نا۔ جوڈیشل ریمانڈ کی اہمیت کو سمجھیں۔ چالان آجائے تو جوڈیشل ریمانڈ غیر مؤثر ہوجاتا ہے۔ جوڈیشل ریمانڈ کا مقصد چیئرمین پی ٹی آئی کی چودہ روز کے بعد خیر و عافیت معلوم کرنا ہے۔‘

وکیل نے کہا کہ ’سپریم کورٹ کے ججز نے کہا جج ہمایوں دلاور کو توشہ خانہ کیس میں کیا جلدی ہے۔ توشہ خانہ، سائفرکیس میں ملزم کو ٹرائل کی جلدی ہونی چاہیے۔ یہاں مدعی جلدی کر رہا ہے۔ دیگر کیسز معمول کے مطابق چلائے جا رہے ہیں۔ عمران خان کے خلاف کیسز کا جلدی ٹرائل کیا جا رہا ہے۔‘

جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے ریمارکس دیے کہ ’سائفر کیس عام نوعیت کا نہیں، ہائی پروفائل حساس کیس ہے، اہمیت کو سمجھیں۔‘ وکیل نے کہا کہ ’سائفر کیس کوئی حساس کیس نہیں ہے۔ سائفر کیس کو حساس بنایا جا رہا ہے۔‘

جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے ریمارکس دیے کہ ’سائفر کیس کے چالان کے نقول فراہم کرنے تھے۔ پی ٹی آئی قانونی ٹیم نے عدالت کی نہیں سنی۔ اگر کوئی اور بہتر جج لگتا ہے تو لے آئیں۔ میں سیدھا اور صاف بات کرنے والا جج ہوں۔ مجھے کوئی شوق نہیں، میں اپنا پیشہ ورانہ کام کر رہا ہوں۔‘

شیراز رانجھا ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’ہماری کون مانتا ہے؟ جج ہمایوں دلاور کے خلاف درخواستیں دیں، کچھ نہیں ہوا۔ ہم چاہتے ہیں سائفرکیس کا ٹرائل ہی نہ ہو۔‘ جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ ’میں پریس کانفرنس نہیں کر سکتا، جرم کیا ہے تو سزا ہوگی۔ نہیں کیا تو بریت ملے گی۔ سائفرکیس کی سماعت کے لیے لمبی تاریخ دے دیتا ہوں۔ چیئرمین پی ٹی آئی جتنے دن قید ہیں اس کا کیا ہوگا؟ آپ مجھے جج ہمایوں دلاور سمجھتے ہیں، جج ہمایوں دلاور بھی انسان تھے۔ ہمایوں دلاور نے اپنے انداز سے توشہ خانہ کیس چلایا، ابوالحسنات سائفرکیس اپنے طریقے سے چلائے گا۔ اگر سائفرکیس کا ٹرائل ہوگا تو چیئرمین پی ٹی آئی باہر آئیں گے نا۔ مجھے بتائیں اب تک سائفر کیس کی سماعت کیا مؤثر انداز میں نہیں ہوئی؟‘ شیراز رانجھا ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آپ پی ٹی آئی وکلا کی باتوں کو سمجھتے ہیں۔‘

جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ ’اللہ نے اگر سائفر کیس کا فیصلہ ابوالحسنات کے ہاتھوں سے کروانا ہے، تو ابوالحسنات ہی کرے گا۔‘

خیال رہے کہ گذشتہ ماہ عمران خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے احکامات کے تحت اٹک جیل سے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا تھا۔ عدالت نے اپنی تحریری فیصلے میں کہا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو اڈیالہ جیل میں وہ تمام سہولیات مہیا کی جائیں جس کے وہ حقدار ہیں۔

متعلقہ تحاریر