’انڈیا سے ڈی پورٹ نہیں کیا گیا۔۔۔ پوسٹس کے باعث لوگوں کی دل آزاری پر شرمندہ ہوں: زینب عباس

پاکستانی کرکٹ میزبان زینب عباس نے انڈیا میں جاری ورلڈکپ کے دوران اچانک ٹورنامنٹ چھوڑ کر انڈیا سے واپسی کے حوالے سے پہلی بار اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ وہ انٹرنیٹ پر شیئر کی جانے والی پوسٹس کے حوالے سے شرمندہ ہیں۔

انھوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’میں اس درد کے بارے میں بخوبی آگاہ ہوں جو میری شیئر کی گئی پوسٹس (ٹویٹس) کے باعث لوگوں کو ہوا اور میں اس پر شرمندہ ہوں۔‘

زینب عباس کا مزید کہنا تھا کہ ’میں یہ بتانا چاہتی ہوں کہ ان (پوسٹس) کا میرے اقدار اور جو کچھ بھی میں آج ہوں اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

’اس قسم کی زبان کے لیے کوئی گنجائش یا بہانہ کافی نہیں ہے، اس لیے میں ان تمام افراد سے معافی مانگتی ہوں جن کی اس سے دل آزاری ہوئی۔‘

انھوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ ’نہ تو مجھے انڈیا چھوڑنے کی ہدایت کی گئی تھی اور نہ ہی مجھے ڈی پورٹ کیا گیا ہے۔‘

واضح رہے کہ آئی سی سی کی جانب سے انڈیا جانے والی پاکستانی میزبان زینب عباس کے حوالے سے اس وقت تنازع سامنے آنا شروع ہوا جب انڈین وکیل ونیت جندال نے اپنی ٹویٹ میں زینب عباس پر انڈیا اور ہندو مخالف پیغامات لکھنے کا الزام عائد کیا تھا۔

اپنے ان الزامات کے حوالے سے ونیت جندال نے پانچ اکتوبر کو اپنی ٹویٹ میں لکھا تھا کہ ایڈووکیٹ اور سماجی کارکن ونیت جندال کی جانب سے زینب عباس کے خلاف شکایت پولیس میں درج کر دی گئی ہے۔ جس میں سائبر سیل دہلی پولیس سے درخواست کی گئی ہے کہ زینب عباس کی جانب سے ہندو مذہب کے خلاف توہین آمیز ریمارکس اور انڈیا مخالف بیان دینے پر مقدمہ درج کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔‘

مواد پر جائیں
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین
’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں
مواد پر جائیں
ونیت جندال نے مزید لکھا تھا کہ ’زینب کو آئی سی سی ورلڈ کپ سے فوری طور پر پریزنٹرز کی فہرست سے نکال دیا جائے۔‘ انڈیا مخالف لوگوں کو انڈیا میں خوش آمدید نہیں کیا جاتا۔‘

خیال رہے کہ اس سے قبل ایسی اطلاعات گردش کر رہی تھیں کہ زینب عباس کو ڈی پورٹ کیا گیا ہے۔ تاہم آئی سی سی نے اس کی تردید کی تھی اور اپنے مختصر جواب میں آئی سی سی کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’زینب عباس ذاتی وجوہات کی وجہ سے انڈیا سے واپس گئی ہیں، انھیں ڈی پورٹ کرنے کی اطلاعات درست نہیں۔‘

واضح رہے کہ کرکٹ کے بین الاقوامی ادارے آئی سی سی نے پانچ اکتوبر 2023 سے انڈیا میں شروع ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ کے میزبان کے طور پر زینب عباس کا انتخاب کیا تھا۔

زینب کی جانب سے جاری بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ ’میں انٹرنیٹ پر سامنے آنے والے ردِ عمل سے خوفزدہ ہو گئی تھی۔ حالانکہ میری زندگی کو فوری طور پر کوئی خطرہ نہیں تھا لیکن دونوں ممالک میں میرے رشتہ دار اور دوست میرے بارے میں فکر مند تھے۔

’مجھے اس بارے میں سوچنے کے لیے کچھ وقت درکار تھا۔‘

انڈیا میں گزرے وقت کے بارے میں بات کرتے ہوئے زینب نے کہا کہ ’یہاں میری تمام افراد کے ساتھ ملاقاتیں اور بات چیت انتہائی خوشگوار ماحول میں ہوئی اور مجھے اپنائیت کا احساس بھی ہوا‘

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 1
Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

Accept and continue
ویڈیو کیپشن,تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 1
اس سے قبل، زینب عباس نے اپنے اس انتخاب پر خوشی کا اظہار کیا تھا اور دو اکتوبر کو انڈیا روانگی سے قبل انھوں نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنے پیغام میں انتہائی خوشی کا اظہار کیا تھا اور ساتھ ہی لکھا تھا کہ سرحد کے دوسری پار سے مخالفت کے بجائے وہاں کے طور طریقوں اور تہذیب سے ہمیشہ سے ایک دلچسپی رہی ہے۔۔۔ جہاں کھیل کے میدان میں ایک دوسرے کے حریف لیکن میدان سے باہر بھائی چارہ اور محبت موجود ہے۔

انھوں نے اپنی خوشی کے اظہار میں مزید لکھا تھا کہ ’ایک ہی زبان سے تعلق اور آرٹ سے محبت کرنے والے۔۔ ایک ارب لوگوں کے ملک میں کرکٹ کو پریزینٹ کرنے کے لیے آئی سی سی کی ایک بار پھر سے شکر گزار ہوں۔۔۔گھر سے دوری کا چھے ہفتوں کا سفر اب شروع ہوتا ہے۔

آئی سی سی نے تو اپنے بیان میں زینب عباس کے جانے کے فیصلے کو ذاتی وجوہات قرار دیا ہے تاہم اس سے قبل یہ اطلاعات سامنے آ رہی تھیں کہ پاکستانی میزبان زینب عباس انڈیا میں اپنے خلاف دائر کردہ درخواستوں کے بعد ورلڈ کپ کو چھوڑ کر انڈیا سے واپسی کے لیے روانہ ہو گئی ہیں۔

’زینب عباس کی بحفاظت واپسی پر انتہائی خوشی ہے‘
زینب عباس ،تصویر کا ذریعہZAINAB ABBAS
واضح رہے کہ کرکٹ ورلڈ کپ 2023 کے لیے سینکڑوں پاکستانی شائقین کرکٹ کو انڈیا کی جانب سے ویزوں کا اجرا نہیں کیا گیا۔

اس صورت حال کا سامنا صرف ٹکٹس خریدنے والے پاکستان کےعام افراد کو ہی نہیں کرنا پڑا بلکہ سپورٹس کو کور کرنے والے متعدد صحافیوں کو بھی ویزے جاری نہیں کیے گئے تھے۔

ایسے میں زینب عباس کا ورلڈ کپ میں میزبانی کے فرائض انجام دینے کے آئی سی سی کے اعلان نے پاکستانی شائقین کے دلوں میں امید جگائی تھی اور بہت سے فینز نے ان کے انڈیا جانے پر نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اب انڈیا جا رہی ہیں تو کپ بھی ہمارا ہو گا۔

لیکن پیر کو جب زینب عباس کے انڈیا چھوڑنے کی اطلاعات سامنے آنا شروع ہوئیں تو فینز کی جانب سے اس اقدام پر بحث چھڑ گئی۔

کئی صارفین نے جہاں اس اقدام پر انڈیا کی مذمت کی وہیں آئی سی سی اور پی سی بی کی خاموشی اور پاکستانی شائقین کو ویزہ نہ دیے جانے پر انڈین حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔

زبیر علی خان نامی کرکٹ فین نے ایکس(سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا کہ ’انڈیا میں جاری کرکٹ ورلڈ کپ پاکستانیوں کے لیے نو گو ایریا بن گیا ہے اور اس سارے معاملے پر دفتر خارجہ سے لے کر پاکستان کرکٹ بورڈ ڈاکیا سے زیادہ کا کردار ادا نہیں کر رہا۔ ‘

’آج خبر آئی ہے کہ زینب عباس جو کہ آئی سی سی کی جانب سے کرکٹ ورلڈ کپ کی پریزنٹر تھیں، دھمکیوں کی وجہ سے انڈیا چھوڑ کر چلی گئیں لیکن آئی سی سی اس سارے معاملے پر خاموش رہے گا۔‘

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 2
Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

Accept and continue
ویڈیو کیپشن,تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 2
کئی صارفین نے زینب کی واپسی کے اقدام پر انڈیا کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

سفیان مقصود نامی صارف نے لکھا کہ ’کتنی شرم کی بات ہے انڈیا۔۔ یہ وہ ملک ہی نہیں ہے جس کی میں وکالت کرتا تھا اور اس کی تعریف کرتے نہ تھکتا تھا۔۔ سب سے بڑی جمہوریت اور سب سے بڑے سیکولر ملک سے ایک انتہا پسند ملک تک ۔۔ کیا ہی بات ہے آپ کی ۔‘

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 3
Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

Accept and continue
ویڈیو کیپشن,تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 3
شیخ عاطف نامی صارف نے لکھا کہ زینب عباس ہمارے ملک کا فخر ہیں۔ وہ پاکستان کی نمائندگی کرتی ہیں اور ان پر کوئی الزام نہیں لگا سکتا۔

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 4
Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

Accept and continue
ویڈیو کیپشن,تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 4
کئی صارفین نے زینب عباس کی انڈیا سے واپسی پر اپنی خوشی اور بھرپور اطمینان کا اظہار بھی کیا وہیں انڈیا میں خواتین کے غیر محفوظ ہونے کا معاملہ اٹھانا بھی نہیں چوکے۔

ایک صارف نے لکھا کہ ’زینب عباس کی بحفاظت واپسی پر انتہائی خوشی ہے اور ان تمام خواتین کے سلامتی کے لیے بہت دعا ہے جو ابھی انڈیا میں رہ رہی ہیں۔‘

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 5
Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

Accept and continue
ویڈیو کیپشن,تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 5
ثوریا نامی صارف نے لکھا کہ زینب عباس جیسے سپورٹس جرنلسٹ کو ہندو مذہب اور ہمارے ملک کے بارے میں کچھ بھی بولنے کا حق حاصل ہے …کیا یہ درست ہے…میں نے پاکستان میں بہت سے واقعات دیکھے…اگر کوئی وہاں مذہب کا مذاق اڑائے تو لوگوں نے کیا کیا…سب ایک جیسے نہیں ہوتے۔

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 6
Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

Accept and continue
ویڈیو کیپشن,تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 6
زینب عباس کے حوالے سے بنایا جانے والا تنازع تھا کیا؟
ایڈووکیٹ ونیت جندال نے اپنی ٹوئٹس میں زینب عباس پر یہ الزام بھی لگایا تھا کہ ان کی جانب سے سوشل میڈیا پر نو سال قبل ہندو مذہب اور انڈیا مخالف ٹوئٹس کی گئی تھیں اور اس وقت ان کے اکاؤنٹ کا نام ’زینب لوو ایس آر کے‘ تھا جو اب تبدیل ہوکر ’زیڈ عباس آفیشل‘ کردیا گیا ہے۔

اسی تناظر میں نو اکتوبر کی سہہ پہر کو ونیت جندال نے اپنی ٹویٹ میں دعویٰ کیا کہ ان کی شکایت کے بعد ایکشن لیتے ہوئے پاکستانی پریزینٹر کو ڈی پورٹ کر دیا گیا ہے۔

تاہم ان کے اس دعوے کے جواب میں آئی سی سی نے اپنے مختصر جواب میں زینب کے ڈی پورٹ کیے جانے کی خبروں کی تردید کی ہے۔

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 7
Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

Accept and continue
ویڈیو کیپشن,تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔
Twitter پوسٹ کا اختتام, 7
صحافیوں اور شائقین کو معاہدے کے باوجود ویزا نہ ملنے کا معاملہ انڈین وزارت داخلہ کے سامنے اٹھایا جائے: پی سی بی
پی سی بی کی انتظامی کمیٹی کے چیئرمین ذکا اشرف نے آئی سی سی مینز کرکٹ ورلڈ کپ 2023 کی کوریج کے لیے شائقین اور صحافیوں کے انڈین ویزوں میں تاخیر پر شدید تشویش اور کا اظہار کیا ہے۔

ذکا اشرف نے پاکستان کے سیکریٹری خارجہ سائرس سجاد قاضی سے ملاقات میں نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے دفتر کے ذریعے یہ مسئلہ انڈین وزارت داخلہ کے ساتھ اٹھانے کی بھی درخواست کی۔

پی سی بی نے انڈین میڈیا میں رپورٹ ہونے والے سکیورٹی خطرات کا بھی سخت نوٹس لیا ہے اور حکومت سے انڈیا میں کھلاڑیوں کی سکیورٹی کا جائزہ لینے کی درخواست کی ہے انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستانی سکواڈ کی سلامتی اور حفاظت انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔

پی سی بی سے جاری بیان میں اس بات پر مایوسی کا اظہار کیا گیا ہے کہ ’پاکستان کے صحافیوں اور شائقین کو ابھی تک آئی سی سی ورلڈ کپ 2023 میں ویزا کے حصول کے معاہدے کے باوجود پاکستان کے کھیلوں کی کوریج کے لیے انڈین ویزا ملنے میں غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے۔‘

متعلقہ تحاریر