پاکستانی نوجوان کا کراچی سے ‘مارکس’ کے سربراہ تک کا سفر

عمر جب اپنے والدین کے پاس البانیہ جاتے ہیں تو اُن کے کاروبار میں ڈیلوری بوائے کی حیثیت سے بھی کام کرلیتے ہیں۔گزشتہ سال اُنہیں 10 ڈالر کی ٹپ بھی ملی تھی۔

عمراسماعیل اُن چند پاکستانیوں میں شامل ہیں جو اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرکے پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کررہے ہیں۔

اکتالیس برس کے عمراسماعیل امریکا کی سرمایہ کاری بینک گولڈ مین ساکس کے بڈنگ کنزیومر بینکنگ ڈویژن ‘مارکس’ کے سربراہ ہیں۔

عمراسماعیل کا تعلق کراچی سے ہے۔ 11 ستمبر کے حملوں کے بعد امریکا کا احوال بتاتے ہوئے عمر کہتے ہیں کہ اُس وقت پاکستانیوں کو وہاں مشکوک نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

گولڈ مین ساکس سے وابستہ عمر کولوگوں کی سوچ کے زاویے تبدیل کرنے میں طویل عرصہ لگاہے۔

عمراسماعیل نے کراچی گرامراسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی ہے۔ جس کے بعد 1998 میں انہوں نے اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا کے ڈارٹ موتھ کالج کا رُخ کرلیاتھا۔

لیکن پیشہ ورانہ زندگی میں آگے بڑھنے کی دُھن انہیں وال اسٹریٹ تک لے گئی تھی۔

اِس ادارے کے ساتھ کام کرتے ہوئے انہوں نے بہت کچھ سیکھا اور آگے بڑھتے رہے۔

ایک دہائی قبل گولڈ مین ساکس وال اسٹریٹ کا محور تھا۔

اُس وقت کمپنی نے بے تحاشہ منافع کمایا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ درپیش چیلنجز اور سخت مقابلوں نے ادارے کو نئے محاذوں پر کام کرنے پر مجبور کردیا۔

عمراسماعیل کو امریکا میں گولڈ مین ساکس کے ساتھ کام کرتے ہوئے دو چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔

پہلا ساتھیوں کو تربیت دینا اور دوسرا زیادہ سے زیادہ صارفین کو گولڈمین ساکس پراعتماد کرنے پر راضی کرنا تھا۔

عمر اسماعیل نے اس سے پہلے اہلیہ کے ساتھ مل کر ایشیائی کھانوں کا ریسٹورانٹ کھولا تھا جوکہ کامیاب نہ ہوسکا۔

اب البانیہ میں اُن کی ایک سب وے فرنچائز ہے جسے اُن کے والدین چلاتے ہیں۔

عمر جب وہاں جاتے ہیں تو ڈیلوری بوائے کی حیثیت سے بھی کام کرلیتے ہیں۔

اُنہوں نے بلومبرگ سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ سال اُنہیں 10 ڈالر کی ٹپ بھی ملی تھی۔

عمراسماعیل گولڈ مین ساکس کا حصہ اُس وقت بنے جب ادارے کو ایک ایسے شخص کی ضرورت تھی جو صارفین کے ساتھ ایک مضبوط تعلق بناسکتا ہو۔

عمراپنی شخصیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ آج بھی کسی گولڈمین ساکس ایگزیکٹو کی طرح  بالکل نہیں ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ جب لوگوں کو اُن کے عہدے کے بارے میں معلوم ہوتا ہے تو وہ چونک سے جاتے ہیں۔

عمر کے قریبی دوست ٹام ہور کہتے ہیں جوکہ وائٹ ہاوس میں سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے اسسٹنٹ بھی رہ چکے ہیں کہ عمر اتنے بڑے عہدے پر فائز ہیں لیکن نہایت سادہ انسان ہیں۔

اٹام ہور عمر کی سادگی کے بارے میں کہتے ہیں ”اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ اگر وہ کسی ڈسکاؤنٹ اسٹور سے بھی کچھ خریدتے ہیں تو اس بات کو چھپاتے نہیں بلکہ فخریہ بتاتے ہیں۔‘‘

عمر اسماعیل کی شخصیت کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جائے کہ گولڈ مین ساکس کا عمر اسماعیل کو ‘مین اسٹریٹ’ پرلانے کا فیصلہ درست تھا تو غلط نہ ہوگا۔

متعلقہ تحاریر