مشکل فیصلے کرنے کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا، مفتاح اسماعیل
مفتاح اسماعیل پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں اعداد و شمار کی جادوگری دکھاتے رہے

وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس مشکل فیصلے کرنے کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا ۔ وزیراعظم شہباز شریف نے مشکل فیصلے کیے ہیں لیکن عام پاکستانی کو مزید دبائیں گے تو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی ۔
وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے مریم اورنگزیب اورعائشہ پاشا کے ہمراہ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پیٹرول مہنگا کرکے پیسہ گھر نہیں لیکرجارہے ۔گزشتہ حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدے کے برخلاف فیول پر سبسڈی دی، عمران خان جعلی چیک کاٹ کر بھاگ جانے والی حرکت کی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش، دفاع کیلئے 1523، تعلیم کیلئے 109 ارب روپے مختص
وزیر خزانہ نے بتایا کہ ملک کو ہرسال بجلی کی مد میں نقصان 1600 ارب اور سوئی سدرن گیس کا نقصان 2.5 ارب ڈالر ہے۔ یہ نقصانات معیشت کو کے ڈوبیں گے۔ہمارا پہلا ہدف ملک کو سری لنکا جیسی صورتحال سے بچانا ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایٹمی طاقت ہے ہمیں اپنی معیشت سدھارنی ہوگی۔مسائل حل نہیں کیے گئے تو معیشت اتنا بوجھ نہیں اٹھا پائے گی۔گیس میں نقصان ہو رہا ہے پھر بھی گیس کے شعبے میں 400 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی ہے۔کسی فیکٹری کو بند نہیں ہونے دیں گے کیونکہ اس سے روزگار ملتا ہے۔
مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ملک میں جتنے وسائل ہیں ہم نے اب تک اس کا 5 فیصد بھی استعمال نہیں کیا۔ پاکستان اس وقت مشکل مقام پر کھڑا ہے۔ اس سے پہلے کبھی اتنا مشکل اور گھمبیر وقت نہیں دیکھا۔
وفاقی وزیر خزانہ نے پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں بتایا کہ وزیراعظم ہمیشہ پاکستان کے غریب عوام کا سوچتے ہیں۔ہمارا ہدف عوام کو ریلیف فراہم کرنا ہے۔ لوگوں کے لیے سستا آٹا متعارف کروایا جائے گا۔ ہمارا مقصد عوام کی ذاتی آمدنی پر ٹیکس کم کرنا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں تقریباً 30 سے 40 فیصد لوگ 40,000 روپے ماہانہ تک کماتے ہیں۔ ہم نے بجٹ میں تنخواہوں میں 15 فیصد اور پنشن میں 5 فیصد اضافہ کیا ہے۔ہم نے پہلی بار سیلز ٹیکس کے مقابلے میں دکانداروں اور ریٹیلرز فکسڈ ٹیکس لگانے کا منصوبہ بنایا ہے۔
مفتاح اسماعیل نے کہا کہ بجلی کی پیداواری لاگت 30 سے 35 روپے فی یونٹ ہے۔اس وقت بجلی پر سبسڈی 16 روپے فی یونٹ ہےجو کہ اب 1000 ارب روپے تک پہنچ گئی ہے ۔ ایس این جی پی ایل کو موسم سرما میں 2 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ گیس سیکٹر میں سبسڈی کی رقم تقریباً 400 ارب روپے ہے جبکہ اس شعبے میں گردشی قرضہ 1400 ارب روپے ہے۔
یہ بھی پڑھیے
5 پاکستانی بینکس کی آؤٹ لک منفی، سرمایہ کاروں کا پیسہ ڈوبنے کا خدشہ
پوسٹ بجٹ کانفریس میں وزیر خزانہ نے کہا کہ ایل این جی کی عدم دستیابی گردشی قرضے کا باعث بنتی ہے۔کمپنیوں کی طرف سے پی ایس او کے واجبات اس وقت 500 ارب روپے ہیں۔توانائی کے شعبے میں خسارہ دفاعی بجٹ سے زیادہ ہوا ہے۔ مالی سال 23 میں مالیاتی خسارہ 4598 ارب روپے کے لگ بھگ رہے گا۔
مفتاح اسماعیل نے مزید کہا کہ بینکنگ سیکٹر پر برائے نام ٹیکس بڑھا دیا گیا ہے۔پام آئل کی درآمدی قیمت 1600 ڈالر فی ٹن تک پہنچ گئی ہے۔برآمدات کو 35 ارب ڈالر تک بڑھایا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ 2018 میں قرض کی خدمت تقریباً 1499 ارب روپے تھی جبکہ مالی سال 23 میں قرض کی خدمات تقریباً 3900 ارب روپے ہوں گی۔