نور مقدم کے سفاکانہ قتل کو ایک برس مکمل ہونے پر اسلام آباد میں مظاہرہ

نور مقدم کے والدین اور سول سوسائٹی نے مرکزی مجرم کی سزا موت پر  فوری عمل درآمد  کے مطالبہ کیا

سابق سفیر شوکت مقدم کی صاحب زادی نور مقدم کے سفاکانہ قتل کو ایک برس مکمل ہونے پر اسلام آباد میں ایک   یارگار تقریب  کا انعقاد کیا گیا جس میں نور مقدم کی والدین اور سول سوسائٹی سے تعلق والے افراد شریک ہوئے ۔ مظاہرین نے  مطالبہ کیا کہ مرکزی مجرم کی سزا موت پر  فوری عمل درآمد کیا جائے۔اس موقع پر موم بتیاں بھی روشن کی گئیں۔

مقتولہ نور مقدم کے قتل کی پہلی برسی پر اسلام آباد کے ایف نائن پارک میں مقتولہ کی یاد میں تقریب اور مظاہرہ ہوا جس میں نور مقدم کے والد شوکت مقدم،والدہ کوثر مقدم اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد نے شرکت کی ۔

یہ بھی پڑھیے

ماہرہ خان کا نور مقدم کو پہلی برسی پر شاندار خراج عقیدت

اس موقع پر نور مقدم کے والد سابق سفیر شوکت مقدم اور والدہ کوثر کا کہنا تھا کہ نور مقدم کا قتل معمولی واقعہ نہیں، وہ مجرموں  سے کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے۔ان کے بیٹی کے قتل کو ایک برس گزر گیا مگر قاتل ظاہر جعفر کی سزا موت پر اب تک عمل درآمد نہیں ہوسکا۔وہ ٹرائل کورٹ سے ملنے والی سزائے موت پر عمل درآمد ہونے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔

نور مقدم کے والدین کا کہنا تھاکہ نور مقدم کیس پاکستان کی بیٹیوں کا کیس ہےجس سے وہ کسی صورت پیچھے نہیں ہٹیں گے ورنہ امیر زادے یہی سمجھیں گے کہ کسی بھی پاکستان کی بیٹی کو قتل کرکے وہ آزاد گھوم سکتے ہیں۔

بیٹی کے قتل کے بعد  ان کی زندگی سے خوشی ختم ہو گئی ہے وہ اب بھی راتوں کو سو نہیں پاتے۔ نور مقدم بہت غیر معمولی لڑکی تھی، اسی وجہ سے ان کو انصاف کے لیے لڑنے کی ہمت ملی۔

تقریب میں مقتولہ نور مقدم کی قد آدم تصویر آویزاں کی گئی تھی اور کتبے نصب تھے جن پہ مرکزی مجرم کی سزا پر عمل درآمد کسے متعلق مطالبات اور نعرے درج تھے۔اس موقع پر نور مقدم کی یاد میں شمعیں بھی روشن کی گئیں۔

واضح رہے کہ  اسلام آباد میں گزشتہ برس 20جولائی کو عید سے ایک روز قبل قتل کی لرزہ خیز واردات میں 27 برس کی نور مقدم کو وفاقی دارالحکومت کے پوش سیکٹر ایف سیون فور میں تیز دھار آلے سے قتل کردیا گیا تھا۔ عدالت نے رواں برس 28فروری کو مرکزی مجرم ظاہر جعفر کو سزائے موت جب کہ اس کے ملازم مالی جان محمد اور چوکیدار افتخار کو 10،10 سال قید کی سزا سنائی تھی۔عدالت نے مرکزی مجرم کے والدین ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی کے علاوہ خانساماں سمیت 9 ملزمان کو بری کردیا تھا۔

مقتولہ نور مقدم کےوالد شوکت مقدم کی جانب سے مجرموں کی سزا میں اضافے اور 9ملزموں کی بریت کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی۔ جس میں ظاہر ذاکر جعفر، محمد افتخار اور محمد جان کو فریق بنایا گیا ہے۔درخواست گزار کے وکیل شاہ خاور ایڈووکیٹ کا عدالت میں موقف تھا کہ ٹرائل کورٹ کی جانب سے مجرموں سے نرمی برتی گئی ہے، اور قتل جیسے سنگین جرم پر سخت سزائیں دی جائیں۔وکیل نے الزام لگایا کہ سزاوں میں طے شدہ اعلیٰ عدالتوں کے اصولوں کو مد نظر نہیں رکھا گیا۔درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ ایک معصوم انسان کے لرزہ خیز، افسوسناک اور وحشیانہ قتل پرعوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

مقتولہ نور مقدم کے والد کی درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے جبکہ مرکزی مجرم ظاہر جعفر اور دیگر مجرموں کی جانب سے بھی اپنی سزاوں کے خلاف اپیل دائر کی گئی ہیں۔

متعلقہ تحاریر