سپریم کورٹ کے ججز کے لیک ہونے والے خطوط نے سنگین سوالات اٹھا دیئے

سپریم کورٹ کے دو ججوں کے لیک ہونے والے خطوط نے ججوں کی ترقی کو لے کر ایک تنازعہ کھڑا کردیا۔ سوال یہ ہے کہ یہ تنازعہ کھڑا کس نے کیا ہے اور کون اپنے مضموم مقصد کی تکمیل چاہتا ہے۔

میڈیا وار شروع ہو گئی ہے سپریم کورٹ کے ججز کے درمیان ، پہلے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا خط میڈیا پر جاری کردیا اور اب جسٹس طارق مسعود کا خط بھی میڈیا پر آگیا ہے ، بنیادی طور پر جوڈیشل کمیشن اجلاس کو لے کر ایک میڈیا وار شروع ہو گئی ہے ، اہم سوال یہ ہے کہ یہ خط میڈیا کو جاری کون کررہا ہے؟۔

جسٹس طارق مسعود خان جو دو روز قبل ہونے والے جوڈیشل کمیشن اجلاس کے ممبر تھے ان کا لیٹر بھی میڈیا پر جاری کردیا گیا ہے۔ جسٹس طارق مسعود نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دیئے ہوئے تمام ججز کے ناموں سے اختلاف کیا تھا۔ انہوں نے اختلافی لیٹر بھی لکھا تھا۔

Supreme Court, Justice Qazi Faiz Isa

Supreme Court, Justice Qazi Faiz Isa

یہ بھی پڑھیے

جوڈیشل کمیشن میں بڑا اپ سیٹ، چیف جسٹس کے نامزد کردہ تمام نام کثرت رائے سے مسترد

جوڈیشل کمیشن اجلاس ، ججز کی نامزدگی کے فیصلے کے بغیر اجلاس موخر

جوڈیشل کمیشن اجلاس کی مختصر روداد

یاد رہے دو روز قبل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا وہ خط بھی تمام میڈیا چینلز اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی زینت بنا رہا جس میں چیف جسٹس سے جوڈیشل کمیشن اجلاس نہ بلانے سے متعلق استدعا کی گئی تھی۔

جمعرات کو ہونے والے جوڈیشنل کمیشن اجلاس کے فوری بعد تمام میڈیا چینلز پر بریکنگ چلادی گئی کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے نئے ججز کی تعیناتی پر اختلافات سامنے آنے کے بعد اجلاس ختم کردیا۔ بعدازاں سپریم کورٹ کے ترجمان نے اس سے متعلق بیان جاری کیا کہ اجلاس ختم نہیں ہوا بعض ناموں پر اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے موخر کیا گیا ہے۔

ترجمان کے مطابق جوڈیشل کمیشن اجلاس کی نئی تاریخ سے ممبران کو بعد آگاہ کردیا جائے گا۔ اجلاس موخر کرنے سے متعلق 5 ارکان کے ووٹ آئے۔

نامزد ججز کی تفصیلات

سپریم کورٹ میں اس وقت ججز کی چار آسامیاں خالی ہیں اور ایک آسامی اگست میں جسٹس سجاد علی شاہ کی ریٹائرمنٹ سے خالی ہو جائے گی۔ اسی وجہ سے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں پانچ ناموں پر غور کیا گیا۔

ان ججز میں پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس قیصر رشید، لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد وحید جبکہ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس حسن اظہر، جسٹس شفیع صدیقی اور جسٹس نعمت اللہ پھلپھٹو شامل ہیں۔

لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد وحید سینیارٹی کے لحاظ پر اس وقت چوتھے نمبر پر ہیں جبکہ سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس حسن اظہر سینیارٹی لسٹ پر پانچویں، جسٹس شفیع صدیقی چھٹے اور جسٹس نعمت اللہ ساتویں نمبر پر ہیں۔

اس طرح اجلاس میں لاہور ہائیکورٹ میں تین سینیئر ججوں اور سندھ ہائیکورٹ میں چار سینیئر ججوں کی سینیارٹی نظر انداز ہوئی۔

لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد وحید خان اس وقت سینیارٹی کے اعتبار سے چوتھے نمبر پر ہیں۔ سینیارٹی کے لحاظ سے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس امیر بھٹی ،جسٹس ملک شہزاد احمد خان اور شجاعت علی خان ان سے سینیئر ہیں۔

سندھ ہائیکورٹ میں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس احمد علی شیخ، سینیئر ترین جج جسٹس عرفان صداقت خان، جسٹس عقیل احمد عباسی اور جسٹس ندیم اختر سینیئر ججز ہیں۔

اس  مرتبہ بھی لاہور ہائیکورٹ اور سندھ ہائیکورٹ کے وہی ججز دوبارہ نظر انداز ہوئے ہیں، جن کے ناموں پر گذشتہ برس بھی غور نہیں کیا گیا تھا۔

جوڈیشل کمیشن کے ارکان

جوڈیشل کمیشن کے ارکان کی تعداد نو ہے جن میں اس وقت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج جسٹس سرمد جلال عثمانی، اٹارنی جنرل، وزیر قانون اور پاکستان بار کونسل کا ایک نمائندہ بھی اس کمیشن کے رُکن ہیں۔

تبصرہ

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جوڈیشل کمیشن اجلاس کی آڈیو بھی میڈیا پر جاری کردی گئی ، حالانکہ یہ آڈیو سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر آفیشل طور پر جاری کی جاتی ہے ، اس آڈیو کو میڈیا پر جاری کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی ، کیونکہ اگر عام آدمی نے اس سے متعلق آگاہی حاصل کرنی ہے تو وہ  سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاسکتا ہے اور کارروائی کی تفصیلات حاصل کرسکتا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ دو خطوط جو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود کی جانب سے چیف جسٹس کو لکھے گئے وہ امانت تھی جس میں خیانت کردی گئی ، سوال یہ ہے کہ خیانت کی کس نے؟۔ کون چیف جسٹس آف پاکستان کے خلاف کمپین کا حصہ بن رہا ہے؟

تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے دو ججوں کے لیک ہونے والے خطوط نے ججوں کی ترقی کو لے کر ایک تنازعہ کھڑا کردیا۔ سوال یہ ہے کہ یہ تنازعہ کھڑا کس نے کیا ہے اور کون اپنے مضموم مقصد کی تکمیل چاہتا ہے؟۔

متعلقہ تحاریر