دعا زہرا کیس: پولیس نے عدالت میں پروگریس رپورٹ جمع کروادی

پولیس کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ملزم ظہیر کو اسکے وکیل محمد وسیم اور رائے خرم نے بار بار فرار کروایا جبکہ ملزم ظہیر بھی اپنے بیانات بدلتا رہا

کراچی کی مقامی عدالت میں  کم عمر لڑکی دعازہرا کی پسند کی شادی سے متعلق  پولیس نے پروگریس رپورٹ جمع کروادی ہے۔ پولیس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مدعی مقدمہ مہدی کاظمی نے  16 اپریل کو  اپنی بیٹی دعا کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا جس پر  قانونی کارروائی کی گئی ۔

 پولیس رپورٹ میں بتایا گیا کہ مہدی کاظمی کی رپورٹ پر مقدمہ درج کرکے دعا زہرا نامی بچی کی بازیابی کیلئے تمام ترکوششیں کی گئی۔ بچی کی تلاش کے لیے اسپتال اور سماجی تنظیموں سے بھی رابطہ کیا گیا  جبکہ مغویہ اور اسکے اہلخانہ کے موبائل فونز کے ڈیٹا ریکارڈ چیک کیا گیا ۔

یہ بھی پڑھیے

صحافی کا جبران ناصر پر ‘غیر ملکی اور اسلام مخالف ایجنڈا’ رکھنے کا الزام

پولیس کی عدالت میں جمع کروائی گئی رپورٹ میں کہا گیا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے دعا زہرا   کی ظہیر احمد نامی لڑکے سے شادی کا انکشاف ہوا جس پر کراچی پولیس لاہور گئی اور بچی کا بیان ریکارڈ کیا گیا  جس میں دعا زہرا نے بتایا کہ  مجھے اغوا نہیں  کیا گیا بلکہ میں نے اپنی پسند  سے شادی کی ہے ۔

رپورٹ میں کہا گیا زیردفعہ 164 کے تحت ریکارڈ کروائے گئے بیان میں بچی نے کہا کہ وہ ظہیر احمد سے شادی کر چکی ہے ۔ مجھے کسی نے اغوا نہیں کیا اور مزید  یہ کہ دعا نے کراچی واپس جانے سے انکار کیا ۔

پولیس نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ مدعی مقدمہ نے کاغذات سے ثابت کیا کہ بچی کی عمر 14 سال ہے  جبکہ سندھ حکومت کے قانون کے مطابق شادی کی کم از کم عمر 18 سال ہے۔ظہیر احمد نے بچی کو بہلا پھسلا کر زنا کا ارتکاب کیا ۔

کراچی پولیس ملزم ظہیر احمد کو گرفتار کرنے  لاہور پہنچی تو پتہ لگا کہ ظہیر احمد اور اسکا خاندان یہاں کرائے پر رہتا ہے تاہم دعا کے کیس کے بعد وہ اب یہاں نہیں آ رہے اور کہیں اور منتقل ہو گئے ۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ  ملزم ظہیر احمد کی والدہ پنجاب یونیورسٹی کی  ملازمہ ہیں جس یونیورسٹی انتظامیہ سے رابطہ کرکے انہیں عدالتی احکامات سے آگاہ کیا اور استدعا کی گئی کہ اپنی ملازمہ کو قانون کی پاسداری پر آمادہ کیا جائے ۔

پولیس نے اپنی پروگریس رپورٹ میں کہا کہ  ملزم ظہیر احمد اپنی خاندان کے ہمراہ بالا کوٹ منتقل ہوا جہاں اسے محمد وسیم ایڈوکیٹ نے رہائش فراہم کی تاہم پولیس کے وہاں پہنچنے پر اسے وہاں سے بھی فرار کروادیا گیا ۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ملزم ظہیر احمد کے دوسرے وکیل رائے خرم  جو کہ وکیل محمد وسیم کا دوست بھی ہے کا موبائل ملزم کے بھائی شبیر کے زیر استعمال رہا  ۔ دونوں موبائل کے ڈیٹا حاصل کیا گیا تو معلوم ہواکہ مانسہرہ کی کی لوکیشن آرہی ہے ۔

کراچی پولیس نے مانسہرہ پولیس حکام کو عدالتی احکامات کی بابت بتایا گیا جس  وسیم کو حراست میں لیا گیا تاہم وکیل وسیم کی یقین دہانی کے بعد اسے رہا کیا گیا کہ وہ جلد دعا اور ظہیر کو عدالت میں پیش کر دے گا تاہم اس نے اپنی بات پر عمل نہیں کیا ۔

پولیس نے بتایا کہ  خفیہ اطلاع  ملی کہ وسیم مغوی اور ملزمان کو کہیں منتقل کیا جا رہا ہے تاہم کارروائی کے دوران مغویہ اور ملزمان بر آمد نہ ہوسکے تاہم گاڑی کو پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا تھا ۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ اطلاع ملی کہ وسیم ایڈوکیٹ نے  اپنی منشی محمد انیس کے گھر مغوی اور ملزمان کو چھپایا ہوا ہے تاہم وہاں بھی کارروائی کی گئی مگر کامیابی نہیں ہوئی  تاہم پولیس نے مغویہ کی بازیابی کی کارروائی جاری رکھی ۔

پولیس نے بتایا کہ مخبر کی اطلاع پر ملزمان کو گرفتار کیا گیا ۔دوران تفتیش  کراچی پولیس نے پنجاب پولیس  کی مدد سے مغویہ  دعا زہرا اور ملزم کو  چشتیہ بہاولنگر سے  بازیاب کروایا تاہم دعا کے بیان کے مطابق اسے عدالتی حکم پر چھوڑ دیا گیا ۔

پولیس نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ  مدعی مقدمہ کی سپریم کورٹ میں دائر درخواست پر جس پر نئے میڈیکل بورڈ نے مغویہ کی عمر کا تعین 15 سال کا لگایا جس پر مدعی مقدمہ نے دوبارہ سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا ۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ مغویہ نے 19 جولائی  کو  لاہور میں جوڈیشنل مجسٹریٹ کے سامنے درخواسے دائر کی اسے دارالامان بھیجا جائے جس پر اسے دارلامان بھجوا دیا گیا تاہم  مدعی مقدمہ  نے اپیل کی مقدمہ کراچی میں درج ہے تو بچی کو کراچی لایا جائے ۔

عدالتی حکم پر کراچی پولیس نے لاہور کے دارلامان سے مغویہ دعا زہرا کو کراچی منتقل کیا  جبکہ  ملزم ظہیر احمد اپنے دیگر سہولت کار ملزمان کے ساتھ عدالت سے ضمانت حاصل کر کے مقدمہ کی تفتیش میں شامل ہوئے ۔

پولیس کو کال ریکارڈ ڈیٹا سے معلوم ہوا کہ دعا کے اغوا کے روز ظہیر اپنے بھائی شبیر کے ساتھ کراچی میں تھا جبکہ شروع میں اس نے کراچی میں موجودگی کی تردید کی تھی ۔

متعلقہ تحاریر